ایک سال بے مثال: قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صدا’’آوازدی وائس‘‘۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-01-2022
ایک سال بے مثال: قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صدا’’آوازدی وائس‘‘۔
ایک سال بے مثال: قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صدا’’آوازدی وائس‘‘۔

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

نہیں دیر و حرم سے کام ہم الفت کے بندے ہیں

وہی کعبہ ہے اپنا آرزو دل کی جہاں نکلے

مذہب،ذات، رنگ ونسل اور ہر تفریق سے اوپر انسانیت کے نام پر اتحاد کا نام ’’آوازدی وائس‘‘ ہے۔ادارے نے ایسے وقت میں کام شروع کیاجب سماج کو اس کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی۔

جب سماج سے لے کرمیڈیا اور سوشل میڈیا تک میں اشتعال انگیزی کی جارہی ہے اورعوام کے اندر تفریق کو ہوادینے کی کوشش ہورہی،ایسے میں آوازدی وائس اتحادواتفاق اور قومی یکجتی اور بھائی چارہ کا پیغام دینے کے مقصد سے میدان میں اترااور بے حد کامیابی کے ساتھ اس نے اپنی عمر کا پہلا سال مکمل کرلیا ہے۔

۔ 23 جنوری2021 کو عظیم قوم پرست لیڈر سبھاش چند بوس کے یوم ولادت پر اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی لانچنگ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال پورا ہوگیا۔ابتدا میں ویب سائٹ اردو، ہندی، انگلش میں لانچ ہوئی مگر ایک سال مکمل ہونے سے پہلے اس سے آسامی زبان بھی جڑگئی۔

آوازدی وائس کی کامیابی یہی نہیں کہ اس نے پورے جوش وخروش کے ساتھ معاشرے کو مثبت پیغام دیا بلکہ اس نے دلوں کو جوڑنے والی ایسی اسٹوریز بھی پیش کیں جنھیں قومی میڈیا قابل توجہ نہیں سمجھ رہا تھا۔

میڈیا کا ٹرینڈ بن گیا ہے،سنسنسی پھیلانا ،منفی خبروں کوپیش کرنا اور وائرل ہوجانا مگر آوازدی وائس نے اس شارٹ کٹ کے بجائے بجاطور پرایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے،جس کا مقصد دلوں کو جوڑنا، سماج میں اتحاد ویکجتی پیدا کرنا اور ہندوستان میں رہنے والے مختلف سماجی طبقات کو ایک اخوت کے دھاگے یں باندھناہے۔ اس نیک مقصد کے تحت آوازدی وائس نے مثبت اسٹوریز کوبے حد اہتمام کے ساتھ پیش کیا۔ ان میں سے چندکی جھلکیاں آپ ذیل میں ملاحظہ کرسکتے ہیں:

جا نیے! : فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟ (منصور الدین فریدی)

awaz

تاریخی مسجد فتح پوری اور لالہ  چنا مل کا رشتہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کہانی بیان کرتا ہے


فتح پوری مسجد محتاج تعارف نہیں،راجدھا نی کی دوسری بڑی اور تاریخی عبادت گاہ ،جو آج کل اپنی خستہ حالی کے سبب سرخیوں میں ہے۔ یہ خستہ حالی اس کی بنیادوں سے میناروں تک ہے مگر اس خستہ حال عبادت گاہ کی یادوں کے کچھ ایسے خزانے ہیں جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوبصورتی کو اب بھی اجاگر کررہے ہیں بلکہ آج بھی اتحاد اور یک جہتی کا مضبوط پیغام دے رہے ہیں۔۔۳

در اصل اس سرخ پتھر والی مسجد کی تاریخ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک ایسی کہانی سمیٹے ہوئے ہے جو آج کے ماحول اور سوچ کو آئینہ دکھا رہی ہے۔بتا رہی ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور مذہبی رواداری سب سے بڑی طاقت ہے۔ جن کی بنیادوں کو ہلانا ممکن نہیں ہے۔

دراصل فتح پوری مسجد بھی1857 کے غدر کے بعد دہلی کی سینکڑوں مساجد کے ساتھ سنسان اور ویران ہوگئی تھی۔ حد تو یہ ہوگئی تھی کہ1857کے غدر میں سرکاری جائداد اور املاک زبردست نقصان کے سبب انگریزوں نے متعدد جائدادوں اور املاک کو نیلام کردیا تھا ۔جن میں فتح پوری مسجد بھی شامل تھی۔ا

نگریزوں نے1870میں نیلام گھر سجایا تو فتح پوری مسجد کو خریدنے والا کوئی اور نہیں بلکہ چا ند نی چوک کا سب سے بڑا نام لالہ چنا مل تھا جو کہ اس وقت کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔ انگریزوں نے نیلامی اس لیے   کی تھی کہ مسجد کو مہندم کرکے نئی دکانیں اور مکان تعمیر کیے جائیں گے۔ اہم بات یہ رہی کہ لالہ چنا مل نے مسجد کو حاصل کرنے کے بعد منہدم نہیں کیا تھا۔    اسٹوری پڑھیں

جامعہ نظامیہ‘ کا فتوی، جس نے انل کمار چوہان کی خطاطی کو زندگی دی’ (شیخ محمد یونس ۔حیدرآباد)

awaz

ایک غیر مسلم خطاط جو حیدرآباد ی تہذیب کی علامت بنا


جب فتوی کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ پیدا ہوگیا مگر حیدرآباد کے ایک غیر مسلم فنکار اور آرٹسٹ کےلئے جاری ہوا ایک فتوی ان کے خطاطی کے فن کو نئی زندگی دے گیا تھا۔کیونکہ جب شہر کی مختلف مساجد اور مدرسوں کی دیواروں اور صدر دروازے پر قرآنی آیات اور دعائیں تحریرکرنے والے پر مذہب کی بنیاد پر اعتراض کیا گیا تو سرکردہ اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ حیدرآباد نے ایک فتوی جاری کرکے فنکار کی راہ ہموار کی۔ جس کے بعد سے آج تک وہ حیدرآباد اور آس پاس کے علاقوں کی لاتعداد مساجد میں اپنے فن کے دیواری نمونہ تیار کررہے ہیں۔ 

یہ کہانی ہے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے فنکار و آرٹسٹ انیل کمار چوہان کی۔جو اب محتاج تعارف نہیں ہیں۔وہ معمولی پینٹر سے ترقی کرتے ہوئے ایک ماہر خطاط کے طورپر ساری دنیا کے سامنے ابھرے ہیں۔اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔ان کی زندگی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔چوہان نے سخت محنت اور جستجو کے ذریعہ معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور آج وہ ساری دنیا میں مشہور و معروف ہوگئے ہیں۔چوہان کا احساس ہے کہ ابھی بھی وہ سیکھ رہے ہیں اور فن میں مزید مہارت حاصل کررہے ہیں۔ اسٹوری پڑھیں

سری نگر کا راما کول مندر ۔جس کا محا فظ ایک مسلمان ہے (باسط زرگر/ سری نگر)

awaz

کشمیریت کی ایک اور مثال 


سری نگر کا راما کول مندر کشمیریت کی علامت ہے۔ ایک ایسا مندر،جس کی حفاظت ایک مسلمان خاندان کرتا رہا۔ یہ ہے کشمیریت ۔یہ ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے وہ نمونے جو آج بھی کشمیر کو مثبت سرخیوں میں رکتے ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ معاشرے میں آپسی میل محبت اور دوستی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔جنہیں اتنی آسانی کے ساتھ اکھاڑا نہیں جاسکتا ہے۔ 

کشمیر میں حالات خراب تھے اور کشمیری پنڈت وادی سے بھاگ چکے تھے اس وقت بھی یہ مندر بند نہیں ہوا۔یہ مندر سو سال سے زیادہ پرانا ہے۔ اس مندر کی حفاظت کرنے والے انسان کا نام ہے محمد صدیق۔جو مندر کے خالی اور لاوارث ہونے کے سبب اس کے خود ساختہ نگراں بن گئے تھے۔ وہ مندر کو صاف کرتے تھےاور اس کی دیکھ ریکھ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مندر کی مرمت کرائی اوریہی نہیں مندر کی چہار دیواری کو بھی تعمیر کرایا جو خستہ حال ہوکر گر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں شدت پسندی کے دوران مندر ویران ہوا تھا مگر جب بھی کوئی خطرہ آیا وہ اس کے سامنے ڈٹ گئے۔ اسٹوری پڑھئے

صرف مندر اور مسجد کا نہیں ۔ یہ دلوں میں جانے کا بھی راستہ ہے (منصور الدین فریدی ۔نئی دہلی)

awaz

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جیتا جاگتا نمونہ بنا یہ داخلی دروازہ


سوشل میڈیا پر فرقہ واریت کا زہر پھیلایا جاتا ہے،نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں،ملک کی فرقہ وارانہ بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کو ہی دیش بھکتی مانا جاتا ہے۔ٹکراو اور تناو کے معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا کوئی نمونہ سامنے آتاہے تو اس کو ہاتھوں ہاتھ باٹنے والے بھی کم ہوتے ہیں اور اس کے خریدار بھی۔ایسا ہی ایک نمونہ کیرالہ میں سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک مسجد اور ایک مندرکا سڑک پر داخلی گیٹ نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی طاقت بیان کررہا ہے بلکہ ملک کی ایک خوبصورت تصویر بھی پیش کررہا ہے۔ 

یک مثال ایک نمونہ ہرا ، بھگوا ،نیلا اور سفیدرنگ کا یہ داخلی گیٹ ملک کےلئے ایک مثال ہے۔ بلال مسجد اور مہا وشنو مندر کامشترکہ داخلی محراب بنا کر بین المذاہب اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کی کامیاب اور زندہ مثال پیش کی گئی ہے۔داخلی دروازے کے ایک ستون پر ہے مسجد کی علامت اور ایک ستون پر ہے مندر کی علامت۔ دروازے کی دائیں طرف مسلم ہلال چاند اور بائیں طرف ’اوم‘درج ہے۔ محراب قومی شاہراہ 66 سے دیکھا جا سکتا ہے۔              اسٹوری پڑھیں

کریم نگر:عمران اور سرینواس نے انجا م دیں لاوارث بزرگ کی آخری رسومات (شیخ محمد یونس ۔ حیدر آباد)

awaz

مشکل گھڑی میں کام آئے رام اور رحیم 


یہ تصویر جو آپ کے سامنے ہے بظاہر تو اس میں ایک چتا نظر آرہی ہے اور دو افراد لکڑیاں جمارہے ہیں۔تاہم اس تصویر میں مختلف قابل غور پہلو بھی ہیں ۔ دراصل مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دو افراد انسانیت کو زندہ و تابندہ رکھنے کی خاطر مصروف عمل ہیں۔ یہ تصویر اپنے اندر غم و کرب کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت اور بلا لحاظ مذہب و ملت اتحاد و اتفاق کے عظیم درس کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں ہندوستان کے عظیم و تاریخی ورثہ گنگا جمنی تہذیب کی جھلک بھی ملتی ہے جو اسے ساری دنیا میں ممتاز بناتی ہے۔ 

کریم نگر کے وینا وینکا منڈل کا 70سالہ معمر شخص جنگیا کورونا وائرس سے متاثر ہوگیا اور خوف کے عالم میں خودکشی کرلی۔ اس شخص کو چار بیٹیاں ہیں۔ بیٹیاں اور داماد ہونے کے باوجود کورونا کے خوف سے کوئی بھی آخری رسومات کے لئے آگے نہیں آیا۔ گائوں کے افراد نے بھی آخری رسومات کی انجام دہی سے انکار کردیا ۔

 جب جنگیاکی آخری رسومات کیلئے کوئی بھی آگے نہیں آئے تب ایسے حالات میں عمران پاشاہ نے انسانیت کا ثبوت دیا اور جنگیا کی آخری رسومات انجام دینے کا تہیہ کرلیا۔عمران پاشاہ پیشہ سے میکانک ہے ۔انہوں نے مدد کیلئے صدا لگائی اور برادر وطن سرینواس108 ایمبولنس کے ڈرائیور آگے آئے ۔عمران پاشاہ نے سرینواس کے ہمراہ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے پی پی ای کٹس پہن کر جنگیا کی آخری رسومات انجام دیں۔اس پورے واقعہ میں عمران پاشاہ اور سرینواس معاشرہ کو انسانیت کے ساتھ ساتھ اتحاد و اتفاق کا درس دے رہے ہیں۔ایسی ہی خدمات کے باعث آج انسانیت زندہ ہے اور یہی ہندو' مسلم اتحاد کی طاقت ہے۔   اسٹوری پڑھیں

بابائے لاہور سر گنگا رام :جنہیں پاکستان نے بھلا دیا (منصور الدین فریدی / نئی دہلی)

awaz

سرگنگا رام ترقی کے ضامن تھے جنہیں بابائے لاہور کہا جاتا ہے


سر گنگا رام ۔ یہ نام سنتے ہی ہم دہلی والے تو بس ’گنگا رام اسپتال‘پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے آگےکی کہانی نہ جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔دراصل اب سرحد پار سے خبر آئی کہ لاہور میں ‘سر گنگا رام ‘ کی سمادھی کو دوبارہ کھولے جانے کا اعلان کیا تو لوگوں میں کچھ اس بارے میں بے چینی ہوئی کہ آخر گنگا رام اسپتال دہلی میں ہے، اور گنگارام کی سمادھی لاہور میں کیسے ۔ کون تھے گنگا رام؟ کیا ماجرا ہے؟

در اصل جو نہیں جانتے ہیں انہیں آسان لفطوں میں یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ماہر تعمیرات، سول انجینئر، ماہر زراعت، زرعی سائنسدان، سماجی کارکن،رائے بہادر، سر، سر گنگا رام’کو ’لاہور کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ ’بابائے لاہور۔ یا ’فادر آف لاہور‘ ۔ آج اگرلاہور،لاہور ہے تو وہ گنگا رام کی دین ہے۔لاہور جن قدیم عمارتوں پر گھمنڈ کرتا ہے وہ سب گنگا رام کی دین ہیں ،ان میں کسی کا نقشہ انہوں نے بنایا تھا تو کسی کو اپنی نگرانی میں بنایا تھا۔

آج پنجاب میں جو ہری بھری فصلیں لہرارہی ہیں وہ سب گنگا رام کی زرعی سوچ کی دین ہیں۔پانی کی نکاسی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نظام بھی انہی کی دین ہے۔آج کا لاہوراسی ایک شخص کی ناقابل یقین کوششوں سے وجود میں آیا۔ دراصل یہ کہانی ہے آپ کو کچھ مقامات پر یقیناً مسحور کرے گی لیکن بہرحال جھنجھوڑے جانے کے لئے بھی تیار رہیں کیونکہ جب یہ سوال آئے گا کہ جس نے پاکستان کو لاہور دیا اس کو پاکستان نے کیا دیا؟ تو اہل پاکستان کا سر جھک جائے گا۔- جس کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے، اس کی مثال اس ابر کرم کی سی تھی جو برستا ہے تو بلاامتیاز برستا ہے۔    اسٹوری پڑھیں

شیخ خاندان' نے کی منھ بولی بیٹی’رجیتا'کی شادی' (شیخ محمد یونس، حیدرآباد)

awaz

ایک شادی ایسی بھی۔جب مسلم والدین نے ہندو بیٹی کی شادی کی


 تلنگانہ کے ضلع کاماریڈی کے بانسواڑہ میں ایک مسلم جوڑے نے غیر مسلم منھ بولی بیٹی کی اپنی سرپرستی اور نگرانی میں شادی کی انجام دہی کے ذریعہ انسانیت دوستی 'قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک خوبصورت مثال پیش کی ہے۔  

عرفانہ بانو سوشیل ویلفیر ہاسٹل بورلم کی صدرمعلمہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ان کے خاوند شیخ احمد ' محکمہ ویٹرنری میں ائوٹ سورسنگ کی اساس پر برسرکار ہیں۔آج سے 10 سال قبل عرفانہ بانو جب تاڑوائی کستوربا اسکول میں اسپیشل آفیسر تھیں انہیں پتہ چلا کہ طالبہ رجیتا یتیم و یسیر ہیں اور اس کے والدین کا ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا ہے۔عرفانہ بانو نے نہ صرف رجیتا کو گود لیا بلکہ اسے اپنے مکان میں رکھ کر معیاری تعلیم دلوائی اور اب شادی کی ذمہ داری بھی بحسن و خوبی انجام دیں۔عرفانہ بانو نے رجیتا کو اس وقت گود لیا تھا جبکہ وہ جماعت ششم میں زیر تعلیم تھی۔       اسٹوری پڑھیں