جامعہ نظامیہ‘ کا فتوی، جس نے انل کمار چوہان کی خطاطی کو زندگی دی’

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-07-2021
شہر حیدرآباد کے مشہور و معروف خطاط انیل کمار چوہان
شہر حیدرآباد کے مشہور و معروف خطاط انیل کمار چوہان

 

 

شہر حیدرآباد کے مشہور و معروف آرٹسٹ انیل کمار چوہان سے ایک خصوصی ملاقات

شیخ محمد یونس ۔حیدرآباد

جب فتوی کا ذکر آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ پیدا ہوگیا مگر حیدرآباد کے ایک غیر مسلم فنکار اور آرٹسٹ کےلئے جاری ہوا ایک فتوی ان کے خطاطی کے فن کو نئی زندگی دے گیا تھا۔کیونکہ جب شہر کی مختلف مساجد اور مدرسوں کی دیواروں اور صدر دروازے پر قرآنی آیات اور دعائیں تحریرکرنے والے پر مذہب کی بنیاد پر اعتراض کیا گیا تو سرکردہ اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ حیدرآباد نے ایک فتوی جاری کرکے فنکار کی راہ ہموار کی۔ جس کے بعد سے آج تک وہ حیدرآباد اور آس پاس کے علاقوں کی لاتعداد مساجد میں اپنے فن کے دیواری نمونہ تیار کررہے ہیں۔

یہ کہانی ہے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے فنکار و آرٹسٹ انیل کمار چوہان کی۔جو اب محتاج تعارف نہیں ہیں۔وہ معمولی پینٹر سے ترقی کرتے ہوئے ایک ماہر خطاط کے طورپر ساری دنیا کے سامنے ابھرے ہیں۔اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔ان کی زندگی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔چوہان نے سخت محنت اور جستجو کے ذریعہ معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور آج وہ ساری دنیا میں مشہور و معروف ہوگئے ہیں۔چوہان کا احساس ہے کہ ابھی بھی وہ سیکھ رہے ہیں اور فن میں مزید مہارت حاصل کررہے ہیں۔

 نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

 تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

 انیل کمار چوہان ایک ایسے غیر مسلم خطاط ہیں جنہوں نے 200 سے زائد مساجد کی دیواروں پر قرآنی آیات' اسمائے مبارک تحریر کئے ہیں۔فن میں ماہر ہونے کے باعث وہ کافی مشہور ہوگئے ہیں اور مختلف مقامات سے لوگ ان کی خدمات کے حصول کے منتظر رہتے ہیں۔ماہ رمضان میں انیل کمار چوہان مسلسل مصروف رہتے ہیں۔

انیل کمار چوہان نے آواز دی وائس کے نمائندہ سے بات چیت کی ان کی گفتگو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

 سوال: بچپن کے حالات اور پیشہ پینٹنگ کو اپنانے کی کیا ہے؟

 جواب: میرے ماما اور والدہ بہترین پینٹر تھے یہی وجہ ہے کہ بچپن ہی سے مجھے بھی پینٹنگ کا شوق تھا میرا خاندان مہاراشٹرا سے تعلق رکھتا ہے جبکہ میراننھیال حیدرآباد کا ہے۔ہم بھی حیدرآباد منتقل ہوگئے ۔میرا تعلق غریب خاندان سے تھا ۔خاندان کی کفالت کی ذمہ داری کے باعث دسویں جماعت کے بعد سلسلہ تعلیم منقطع کرنا پڑا میں ڈرائنگ اور پینٹنگ میں ماہر تھا لہذا میں نے پینٹر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔

سوال:آپ اردو اور عربی رسم الخط کی طرف کیوں مائل ہوئے۔

 جواب:شہر حیدرآباد میں آج سے 35 سال قبل اردو زبان کا چلن عام تھا ۔تجارتی اداروں اور دکانات پر اردو سائن بورڈس لازمی طورپر نصب کئے جاتے تھے ۔شہر کی اکثریت اردو داں تھی اور بیشتر دکاندار مسلمان تھے لہذا انہیں بھی حالات کے لحاظ سے خود کو ہم آہنگ کرنے کیلئے اردو زبان سے واقفیت حاصل کرنا بے حد ضروری تھا۔لہذا میں نے اردو سیکھنے کا آغاز کیا ۔اردو کی اساس پر میں نے عربی تحریر بھی شروع کی۔

awazurdu

انل کمار چوہان خطاطی میں مشغول

سوال: آپ نے اردو زبان کہاں اور کیسے سیکھی؟

جواب: میں اردو زبان سے ناواقف تھا چونکہ میرے کام کیلئے اردو زبان لازم و ملزوم ہوگئی تھی ' میں نے اردو زبان کو بہر صورت سیکھنے کا تہیہ کرلیا ' میں نے اپنی محنت اور جستجو کے ذریعہ اردو زبان سیکھی ۔آج میں اردو زبان پر عبور حاصل کرچکا ہوں۔اردو کے سیکھنے کیلئے میں نے کوئی اسکول کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی کسی استاد سے اردو تعلیم حاصل کی۔ابتداء میں میں بغیر سمجھے اردو الفاظ لکھنے لگا اس دوران اردو زبان کی حلاوت اور شیرینی کی وجہ سے مجھے اس سے محبت ہوگئی ۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اردو حروف اور الفاظ کی شناخت ہونے لگی میں فرصت کے اوقات میں اردو کتب سے الفاظ نقل کرتا اور اس کی مشق کرتا۔دکانات کے سائن بورڈس کی تحریر کے دوران بھی مجھے اردو زبان سیکھنے میں کافی مدد ملی۔میں فن میں ماہر ہی تھا تاہم رفتہ رفتہ اردو زبان میں بھی مہارت حاصل کرلی۔اردو زبان کی مدد سے عربی تحریر پر بھی خاص توجہ دی اور اردو کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی فن خطاطی میں مہارت حاصل کی۔

 سوال:مساجد میں قرآنی آیات لکھنے کا موقع کیسے حاصل ہوا؟

 جواب:فن خطاطی میں میری مہارت کو دیکھتے ہوئے تقریباً 30 سال قبل النور مسجد کشن باغ کے ذمہ داران مجھ سے رجوع ہوئے اور مسجد کی دیواروں پر قرآنی آیات تحریر کرنے کی خواہش کی ۔بس کیا تھا ۔یہ میرے فن کی مسلمہ حیثیت کا ثبوت تھا۔ میں نے مسجد کے ذمہ داران کی خواہش پر لبیک کہا ۔تب سے آج تک میں نے 200 مساجد میں قرآنی آیات ' عشرہ مبشرہ' خلفائے راشدین کے نام تحریر کئے ہیں۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ میری پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہونے لگی۔

 سوال:غیر مسلم ہوتے ہوئے مساجد میں قرآنی آیات تحریر کرنے پر کسی نے اعتراض کیا؟

جواب:مساجد میں قرآنی آیات اور اسمائے مبارک تحریر کرنے پر چند گوشوں سے اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک غیر مسلم شخص کیسے مسجد میں داخل ہوسکتا ہے اور قرآنی آیات اور اسمائے مبارک تحریر کرسکتا ہے۔اس وقت مجھے قدرے مایوسی ہوئی ۔تاہم اس معاملہ میں ' میں سرکردہ اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے رجوع ہوا اور فتوی حاصل کیا ۔پاکیزگی کا خیال رکھتے ہوئے مجھے مساجد میں قرآنی آیات کی تحریر کی اجازت دی گئی۔جامعہ نظامیہ سے منظوری ملنے کے بعد تمام اعتراضات ختم ہوگئے اور آج معاملہ یہ ہے کہ تمام مسلمان نہ صرف میرے فن کی قدر کرتے ہیں بلکہ میرا احترام بھی کرتے ہیں۔

awazurdu

حیدرآباد کی ایک اور مسجد جس کو انل کمار چوہان کے فن کا نمونہ

سوال:کیا مساجد میں قرآنی آیات کی تحریر کیلئے آپ معاوضہ لیتے ہیں ؟

جواب:میں نے 100 سے زائد مساجد میں بلا معاوضہ قرآنی آیات کی تحریر عمل میں لائی ہے جبکہ 100 مساجد کیلئے خدمات کی انجام دہی پر مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔چونکہ مساجد میں قرآنی آیات کی تحریر سے روحانیت کا احساس ہوتا ہے اور یہی روحانی احساس مجھے معاوضہ طلب کرنے سے روکتا ہے۔اس کام کیلئے مجھے جو بھی ہدیہ دیا جاتا ہے میں اسے قبول کرلیتا ہوں کیونکہ میری گزر بسر اسی پر ہے اور میرے پاس کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے۔

سوال:فن اور حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب سے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں؟

جواب:فن اور فنکار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔وہ تمام مذاہب کیلئے خدمات انجام دیتاہے۔میرے پاس کسی بھی قسم کا بھید بھائو نہیں ہے۔میں مساجد ' درگاہوں ' خانقاہوںمیں قرآنی آیات تحریر کرنے کے علاوہ منادر میں بھی پینٹنگس کیا ہوں۔میرے فن اور خدمات سے میں مطمئن اور خوش ہوں۔میں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب سے بے حد متاثر ہوں ۔حیدرآباد ہندو۔مسلم اتحاد کا بہترین گہوارہ ہے یہاں سب شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ایک دوسروں کی خوشیوں اور دکھ درد میں شرکت کرتے ہیں۔میری دلی خواہش ہے کہ شہر حیدرآباد کی قومی یکجہتی مزید پروان چڑھے۔

سوال:کیا آپ مسلم مذہبی اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں؟

 جواب:مساجد اور درگاہوں میں روحانی کام کی انجام دہی کے باعث میرے کئی مسلم دوست ہیں ' مجھے مذہبی اجتماعات سے کافی عقیدت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ماہ چاند کی 28 تاریخ کو میں بگدل شریف کی درگاہ میں محافل میں شرکت کرتا ہوں اور ان نورانی محافل میں نعتیہ کلام پیش کرتا ہوں۔علاوہ ازیں سکندرآباد بوئن پلی کی دومساجد مسجد حسینی اور مسجد محمدی میں ہر جمعرات کو پابندی کے ساتھ بورڈ پر چاک سے احادیث شریف تحریر کرتا ہوں اور مساجد کی کمیٹیوں کی طرف سے مجھے ہدیہ بھی دیا جاتا ہے۔میں نے اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ کے 125سالہ جشن یوم تاسیس کے موقع پر اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ یٰسین شریف کا طغرٰی تحفتاً پیش کیا اور یہ طغریٰ جامعہ نظامیہ کی لائبریری میں موجود ہے۔ 

awazurdu

حیدرآباد کی ایک مسجد میں انل کمار چوہان کے فن کا نمونہ

سوال:آپ کے فن سے آپ کے افراد خاندان کو دلچسپی ہے؟

جواب:میرے فن سے میرے افراد خاندان یعنی بچوں کو دلچسپی نہیں ہے ۔میرے بچے گریجویٹ ہیں اور مختلف کمپنیوں میں برسرکار ہیں۔جبکہ میرے چھوٹے بھائی راجیش چوہان ''خط کوفی'' کے ماہر ہیں یہ بغیر زیر و زبر کی تحریر ہوتی ہے اس کی سعودی عرب میں کافی مانگ ہے۔راجیش چوہان گزشتہ 25برسوں سے میرے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ 

سوال:آپ کتنی زبانوں میں خطاطی کرتے ہیں؟

جواب:میں اردو ' عربی کے علاوہ ہندی' انگریزی 'تلگو 'مرہٹی اور بنگالی میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہوں۔میں نے باقاعدہ طورپر کوئی اسکول یا مدرسہ سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔یہ میری خداداد صلاحیت ہے جس کیلئے میں اوپر والے کا شکر گزار ہوں۔

سوال:آپ مستقبل میں اپنے کلکشن کی نمائش کے خواہاں ہیں؟

 جواب:ہاں ' مستقبل میں ' میں اپنے کلکشن کی نمائش کا ارادہ رکھتا ہوں البتہ میں نے ہر سال منعقد شدنی مشہور و معروف عالمی نمائش نامپلی میں دومرتبہ اسٹال قائم کئے تھے ۔اب میں اپنے کلکشن کی نمائش کیلئے تیاریوں میں مصروف ہوں اور عنقریب نمائش کے انعقاد کا ارادہ ہے۔

awazurdu

 انیل کمار چوہان فن ہر کسی کو کرتا ہے دنگ

سوال:کیا سرکاری سطح پر آپ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا؟

 جواب:افسوس صد افسوس ۔سرکاری سطح پر آج تک میری خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی تہنیتی تقریب یا ایوارڈ تقریب میرے اعزاز میں منعقد کی گئی۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کیلئے میری خدمات سب پر عیاں ہیں تاہم آج تک میرے فن اور خدمات کی سرکاری سطح پر قدردانی نہیں ہوئی ہے۔

سوال:نوجوان نسل کیلئے آپ کا کیا پیغام ہے؟

جواب: میں نوجوان نسل کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے پسندیدہ شعبہ میں مہارت حاصل کریں۔کوئی بھی فن ' ہنر ہویا تعلیم ۔محنت شاقہ کے ذریعہ سماج میں نمایاں مقام حاصل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تمام شعبہ جات میں صرف اور صرف ماہرین کی ہی مانگ ہے۔

awazurdu

 الغرض آج اپنے فن کی بدولت انیل کمار چوہان ساری دنیا میں شہرت کی بلندیوں پر ہیں ۔ان کے فن' مہارت اور تحریروں کو دیکھ کر کوئی بھی داد و تحسین دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔مگر قابل غور امر یہ ہے کہ فن میں مہارت کیلئے ان کی تقریباً ساڑھے تین دہوں پر مشتمل محنت شاقہ کافی اہمیت کی حامل ہے۔فن میں مہارت کے ذریعہ عالمی سطح پر شناخت کا حصول ان کا دیرینہ خواب تھا جو آج شرمندہ ء تعبیر ہورہا ہے۔انہوں نے ان کے فن کی تعریف و ستائش پر سب کا شکریہ ادا کیا۔٭٭