بابائے لاہور سر گنگا رام :جنہیں پاکستان نے بھلا دیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-05-2021
بابائے لاہور سر گنگا رام
بابائے لاہور سر گنگا رام

 

 

منصور الدین فریدی / نئی دہلی

سر گنگا رام ۔ یہ نام سنتے ہی ہم دہلی والے تو بس ’گنگا رام اسپتال‘پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے آگےکی کہانی نہ جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔دراصل اب سرحد پار سے خبر آئی کہ لاہور میں ‘سر گنگا رام ‘ کی سمادھی کو دوبارہ کھولے جانے کا اعلان کیا تو لوگوں میں کچھ اس بارے میں بے چینی ہوئی کہ آخر گنگا رام اسپتال دہلی میں ہے، اور گنگارام کی سمادھی لاہور میں کیسے ۔ کون تھے گنگا رام؟ کیا ماجرا ہے؟

 در اصل جو نہیں جانتے ہیں انہیں آسان لفطوں میں یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ماہر تعمیرات، سول انجینئر، ماہر زراعت، زرعی سائنسدان، سماجی کارکن،رائے بہادر، سر، سر گنگا رام’کو ’لاہور کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ ’بابائے لاہور۔ یا ’فادر آف لاہور‘ ۔ آج اگرلاہور،لاہور ہے تو وہ گنگا رام کی دین ہے۔لاہور جن قدیم عمارتوں پر گھمنڈ کرتا ہے وہ سب گنگا رام کی دین ہیں ،ان میں کسی کا نقشہ انہوں نے بنایا تھا تو کسی کو اپنی نگرانی میں بنایا تھا۔آج پنجاب میں جو ہری بھری فصلیں لہرارہی ہیں وہ سب گنگا رام کی زرعی سوچ کی دین ہیں۔پانی کی نکاسی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نظام بھی انہی کی دین ہے۔آج کا لاہوراسی ایک شخص کی ناقابل یقین کوششوں سے وجود میں آیا۔

 دراصل یہ کہانی ہے آپ کو کچھ مقامات پر یقیناً مسحور کرے گی لیکن بہرحال جھنجھوڑے جانے کے لئے بھی تیار رہیں ۔کیونکہ جب یہ سوال آئے گا کہ جس نے پاکستان کو لاہور دیا اس کو پاکستان نے کیا دیا؟ تو اہل پاکستان کا سر جھک جائے گا۔- جس کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے، اس کی مثال اس ابر کرم کی سی تھی جو برستا ہے تو بلاامتیاز برستا ہے۔

نشانیاں جویاد دلاتی ہیں

 پنجاب کے پرانےلوگ اب بھی انہیں ’لاہور کا باپ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بطور ایک انجینئر انہوں نے موجودہ لاہور کو جو عمارتیں دیں وہ آج بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر اور طرز تعمیر کی بنیاد پر اپنی نوعیت کی شانداراور خوبصورت عمارتیں ہیں۔دراصل لاہور کی بیشتر عمارتوں کو نہ صرف ڈیزائن کیا بلکہ ان کے سوا تاریخی نوعیت کی عمارتوں کی تعمیر کے نگران بھی ہوئے۔ ایسی عمارتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔

awazurdu

لاہور کا میوزیم

لاہور کا جنرل پوسٹ آفس۔ لاہور عجائب گھر۔ ایچی سن کالج کا وسیع تعلیمی کامپلیکس ۔ نیشنل کالج آف آرٹس۔ گنگا رام اسپتال‘ لیڈی میکلیگن گرلز ہائی سکول‘ گورنمنٹ کالج کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ۔ میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ۔ لاہور ہائی کورٹ۔ گنگا رام ہائی ا سکول جو ان دنوں لاہور کالج فار وومن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہیلی کالج آف کامرس۔ مال روڈ پر گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ جسے اب فضل دین مینشن کہا جاتا ہے۔ لاہور کی پہلی جدید آبادی ماڈل ٹائون۔ پٹھان کوٹ اور امرتسر کے درمیان ریل گاڑی گنگا رام کی ہی دین ہیں۔

ان کے ساتھ برصغیر میں پہلا’’امن گھر‘‘ بیوہ عورتوں کے لئے اور دہلی کا سب سے مشہور اور اہم اسپتال‘ گنگا رام اسپتال بھی ان نشانیوں میں شامل ہیں۔

awazurdu

لاہور کا گنگا رام اسپتال

سرکاری ملازمت میں صرف خدمت

 آپ کو بتا دیں کہ سر گنگا رام کی انجینیئرنگ سے خوش حکومت ہند نےانہیں ’رائے بہادر‘ کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ مگر 1903 میں انھوں نے سرکاری نوکری سے سبکدوشی اختیار کی۔ان میں ایک بے چینی تھی۔کچھ ایسا کرنے کا جوش اور جذبہ تھا جو سماج کو مالامال کردے۔جب تک سرکاری ملازمت میں رہے تو تک کام کو سیوا اور خدمت کے جذبہ سے ہی کیا۔وہ اپنی زندگی کو مکمل طور پر عوام کی فلاح کے لئے وقف کرنا چاہتے تھے چنانچہ چند سال میں ہی پٹیالہ سے واپس لاہور آگئے۔

گاوں بسا لیا

 گنگا رام نے اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لئے ضلع لائلپور (فیصل آباد) میں پانچ سو ایکڑ زمین خرید کر ایک گاؤں آباد کیا جسے گنگا پور کا نام دیا گیا۔ گنگا پور ہندوستان کا پہلا فارم تھا جہاں پر زرعی مشینری استعمال ہوئی تھی، یہاں بوائی سے زمین کی تیاری اور کٹائی تک اور باغبانی کے جدید طریقوں سے آلات تیار کئے جاتے تھے۔ یہ مقام قریب ترین ریلوے اسٹیشن سے دو میل دور تھا۔ گنگا پورمیں ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے گئے، فصلوں، سبزیوں اور چارہ کی پیداوار کے لئے آب و ہوا کے مطابق مقامی اور غیر ملکی بیجوں کے معیار پر خصوصی توجہ دی گئی۔

awazurdu

سر گنگا رام کا بسایا گنگا پور

 وہ کوئی کام کچا نہیں کرتے تھے،اس دور میں بھی ہر ریسرچ اور تحقیق پر نظر رکھتے تھے،اس گاوں کو بسانے کے بعد زرعی ترقی کےلئے متعدد زرعی ممالک کے دورے کئے۔انگلش، فرانسیسی اور کینیڈین گندم ایک ساتھ کاشت کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ سبزیوں اور پھلوں کے بیجوں کی پیوندکاری سے ان کی کاشت میں بھی اضافہ ممکن ہوا اور کچھ نئے قسم کے پھل بھی وجود میں آئے۔

گھوڑا ٹرین کا تجربہ

 یہ سر گنگا رام کا دماغ تھا اور محنت تھی جس نے گنگا نگر کی قسمت بدل دی۔دراصل آبپاشی کیلئے برطانیہ سے بہت بڑی اور وزنی موٹر منگوائی جسے بچیانہ سے گنگاپور لانے کی غرض سے گنگا رام نے ریلوے لائن بچھائی گئی۔اس موٹر کو گھوڑا ٹرین کے ذریعے گنگا پور لایا۔ یہ ٹرین اپنی نوعیت کا ایک عجوبہ تھی۔بعد ازاں لائل پور (فیصل آباد) میں یہ منفرد گھوڑا ٹرین چلی۔ آدمیوں سے بھری یہ ٹرالیاں گھوڑے کھینچتے تھے۔

awazurdu

یہ ایک عجوبہ ٹرین ہے

 بچیانہ اسٹیشن سے لے کر گنگا پور گاؤں تک یہ لائنیں بچائی گئیں اور آنے جانے والی گھوڑا ٹرین اسی پر چلتی تھی۔ لائن ایک تھی اور ٹرینیں دو ، تو جب یہ ٹرینیں آمنے سامنے آ جاتیں تو مسافر ایک ریل سے اتر کر دوسری میں سوار ہوجاتے تھے اور گھوڑوں کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جاتا ، اس طرح ایک صدی پہلے لوگوں کو وہ سہولت دی گئی جس کا تصور آج بھی ناممکن ہے۔ مرمت نہ کرنے کی وجہ سے گھوڑا ٹرین 1980 میں خراب ہو گئی لیکن اس کا زیادہ تر حصہ آج بھی قابل استعمال ہے۔

 کیا دیا اور کیا ملا

 اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے سرحد کے دونوں جانب کیا نہیں دیا۔لیکن اس کو سرحد پار کس طرح نوازا گیا؟کیا صلہ ملا لاہور کے معمار بننے کا؟ پہلی مثال ہے ملک کی تقسیم کی،1947اگست میں آزادی کی نیّا پار لگنے کوتھی، ہندو مسلم فسادات زوروں پرتھے۔ لاہور کے مال روڈ پر بپھرے لوگوں کا جلوس نکلا ۔ چند سال قبل انگریز حکومت کی جانب سے نصب کیا گیا ایک مجسمہ ان کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔

 سعادت حسن منٹو کی زبانی اس واقعہ کو کچھ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے۔۔

۔۔ ہجوم نے سمت بدلی اور گنگا رام کے بت پرٹوٹ پڑا لاٹھیاں برسائیں اینٹیں اور پتھر پھینکے اور ایک نے منھ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتوں کا ہار بت کے گلے میں ڈالنے کے لئے آگے بڑھا۔ اور پولیس آ گئی گولیاں چلنا شروع ہوگئیں۔جوتوں کا ہار پہنانے والا تو زخمی ہو گیا لہذا مرہم پٹی کے لئے اسے سر گنگا ۔رام اسپتال میں لیجایا گیا۔

دوسرا واقعہ بھی سن لیں،کیونکہ مذہب کا زہر بیچ رہے لوگوں کےلئے وہ واقعہ شرم کا احساس نہیں دلا سکا تھا۔جب ہندوستان میں 1992 میں بابری مسجد کا واقعہ ہوا تو لاہور جاگ گیا۔ لاہورمیں راوی کنارے بنی ایک سمادھی پر حملہ کر کے ڈھا دیا گیا۔ جی ہاں وہ سمادھی بھی سر گنگا رام کی تھی۔ جو بعدازاں پھر سے تعمیر کرائی گئی۔ ان کی پڑپوتی شیلا نے لاہورآ کراسے دوبارہ تعمیر کیا بلکہ گنگا رام ہسپتال کیلئے بھی ایک خطیر رقم وقف کر دی۔اب بتائیں دینے والے کی نسلیں بھی ایسی ہی رہی ہیں۔نفرت کا جواب محنت سے ہی دے رہی ہیں۔

awazurdu

گنگا رام کی سمادھی

 پیدائش ،تعلیم اور ملا زمت

گنگا رام اپریل1851 میں منگتانوالہ میں پیدا ہوئے جو شیخوپورہ میں واقع ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے اختتام کا دور تھا، انگریز قابض ہو چکے تھے۔ ان کے والد دولت رام پولیس میں انسپکٹر تھے چونکہ اصولوں کے پکے تھے اس لئے جلد ہی ملازمت چھوڑ کر امرتسر منتقل ہونا پڑا۔ وہیں پر گنگا رام پلتے بڑھتے رہے۔ گنگا رام نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا،دو سال بعد1871 میں روڑکی کے تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ سے اسکالرشپ حاصل کیا ۔ دوسال بعد اسی کالج سے سونے کے تمغہ کے ساتھ سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔

 تعلیم کے بعد لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر فائز ہوکر لاہور چلے آئے۔ ان کی پوسٹنگ پنجاب کے مختلف شہروں میں ہوتی رہی۔ ان شہروں میں گورداس پور، امرتسر اور ڈیرہ غازی خان کے نام شامل ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں گنگا رام کی ملاقات ضلع کے ڈپٹی کمشنر سر رابرٹ سینڈمین سے ہوئی جو بہت جلد گنگا رام کی صلاحیتوں کے معترف بن گئے۔ سر رابرٹ سینڈ مین نے گنگا رام کو انجینئرنگ کے شعبے کے علاوہ دیگر خدمات کے لئے بھی موزوں و مناسب جانا اور انہیں واٹر ورکس اور ڈرینج کے شعبے میں تربیت حاصل کرنے کے لئے انگلینڈ بھیج دیا۔

 وطن واپسی پر حکومت ہند نے گنگا رام کو پشاور میں پانی کی فراہمی و نکاسی کے منصوبوں کی ذمہ داری سونپ دی بعدازاں انہیں انبالہ، کرنال اور گوجرانوالہ میں بھی ایسے ہی منصوبوں کی تکمیل کے مواقع ملے۔ دو ہی برس بعد وہ لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر بنا دیئے گئے ۔حکومت پنجاب کی سرپرستی کی وجہ سے سر گنگا رام نے ایک جانب لاہور کو جدید نوآبادیاتی فن تعمیر سے متعارف کروایا اور پوری مال روڈ کو شاندار عمارتوں سے بھر دیا،بعد ازاں انھوں نے پنجاب بھر میں زمین کی سیرابی کے لئے متعدد منصوبے تیار کئے اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلی خشک زمینیں سونا اگلنے لگیں ۔

بھگوان سے شراکت داری

لاہور کے معمار گنگا رام کی زندگی کے آخری آیام لندن میں گزرے ، گنگا رام سے ایک بار ان کے کسی دوست نے ان کی دولت اور شہرت کلا رازدریافت کیا۔

توانہوں نے جواب دیا کہ میں جب شہر آیا تھا تو میں نے ایک شراکت داری کی تھی جو پچاس پچاس فیصد کی تھی۔

اسی شراکت داری کے سبب مجھے یہ دولت ملی ہے۔

اس دوست نے حیرانی سے پوچھا کہ کس سے شراکت داری کی ؟

گنگا رام نے جواب دیا کہ بھگوان سے۔

دوست نے حیرانی سے پوچھاکہ بھگوان سے ؟

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں !بھگوان سے۔

انہوں نے بتایا کہ میں جو کچھ کماتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کرتا ہوں ۔

ان کا انتقال 10جولائی 1947کو لندن میں ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی آدھی راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ آدھی لاہور لا کر دریائے راوی میں بہائی گئی جس سے ان کی لاہور سے محبت آشکار ہوتی ہے۔ان کی موت پر اس وقت گورنر پنجاب سر میلکم نے کہا تھا کہ گنگا رام نے ایک ہیرو کی طرح کمایا اور ایک درویش کی طرح لٹایا۔

 کیا کہتے ہیں پاکستانی

 پاکستان کے اردو اخبارات میں، میں نے جو پڑھا ،اس سے لگتا ہے کہ شہری ان کے احسان مند ہیں۔وہ گنگا رام کے ساتھ انصاف چاہتےہیں۔اس ناانصافی کےلئے وہ بد عنوان سیاستدانوں کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ مٹھی بھر شدت پسندوں نے ان کی سمادھی کو نشانہ بنایا تو اس کے بعد برسوں تک حکومت خاموش بیٹھی رہی۔

 ایک پاکستانی صحافی یاسر پیر زادہ گنگا رام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ۔

عام طور سے وہ لوگ جو بہت ذہین ہوں ، خاندانی رئیس ہوں یا پھر اپنی قابلیت کی بنا پر دولت اور کامیابی حاصل کر لیں ان میں رعونت اور احساس تفاخر آجاتا ہے ۔ سر گنگا رام کو ایسا کوئی مرض لاحق نہیں ہوا بلکہ وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے۔لاہورکے باسی اگر اپنے اِس محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ سر گنگا رام کا ایک مجسمہ مال روڈ پر نصب کریں، دنیاکے ہر بڑے اور تاریخی شہر کی یہی روایت ہے ، لاہور کو بھی یہ روایت نبھانی چاہیے۔

ایک اور قلم کار خالد مسعود خان کہتے ہیں ۔۔

اپنے مذہبی معاملے سے قطع نظر گنگارام ایک بڑا آدمی تھا‘ بحیثیت انجینئر بھی اور بطور انسان بھی۔ بطور ایک انجینئر بلکہ بطور ایکسیئن آف دی سٹی اس نے موجودہ لاہور کو جو عمارتیں دیں وہ آج بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر اور طرز تعمیر کی بنیاد پر اپنی نوعیت کی شاندار اور خوبصورت عمارتیں ہیں۔

 ایک اور قلم کا ر جاوید مصباح کہتے ہیں کہ۔

آج بھی اگر تعصب کی تمام کھڑکیاں بند کر کے اور انسانیت کا روشن دان کھول کر راوی کنارے جایا جائے تو آپ کو پانی میں ایک ایسے انسان کی شبیہہ مل سکتی ہے جو ہاتھ میں پنسل، ماپنے والا پیمانہ، ایک چھوٹا سا تھیلا اور کاغذ تھامے بہت مصروف لگ رہا ہے۔

 ایسے ہی ایک خاتون قلم کار روبینہ فیصل نے لکھا تھا کہ ۔

یہ ہندو ہندو کی رٹ مذہب کی بنیاد پر لگا کر ہم نے اس عظیم انسان کو خواہ مخواہ اپنے سے دور کر دیا، جو ہمارا، پاکستان کا، لاہور کا ہیرو ہے، ہم نے پہلے اس کا مجسمہ ہٹایا اور پھر اسے بھی سرحد سے پرے دھکیلنے کی کو شش کی۔ مگر یا د رکھئے سر گنگا رام، ہمارے ہیرو تھے، ہیں اور رہیں گے۔ وہ پاکستان کا غرور ہیں۔لیکن مقامِ افسوس ہے کہ سعادت حسن منٹو کی کہانی سے پہلے ہم نے سر گنگا رام کا نام گنگا رام اسپتال کے علاوہ کہیں نہیں سنا تھا۔