جا نیے! : فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
جا نیے! فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟
جا نیے! فتح پوری مسجد کیوں ہے ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت ؟

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

فتح پوری مسجد محتاج تعارف نہیں،راجدھا نی کی دوسری بڑی اور تاریخی عبادت گاہ ،جو آج کل اپنی خستہ حالی کے سبب سرخیوں میں ہے۔ یہ خستہ حالی اس کی بنیادوں سے میناروں تک ہے مگر اس خستہ حال عبادت گاہ کی یادوں کے کچھ ایسے خزانے ہیں جو ملک کی فرقہ وارانہ  ہم آہنگی کی خوبصورتی کو اب بھی اجاگر کررہے ہیں بلکہ آج بھی اتحاد اور یک جہتی کا مضبوط پیغام دے رہے ہیں۔۔

در اصل اس سرخ پتھر والی مسجد کی تاریخ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک ایسی کہانی سمیٹے ہوئے ہے جو آج کے ماحول اور سوچ کو آئینہ دکھا رہی ہے۔بتا رہی ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور مذہبی رواداری سب سے بڑی طاقت ہے۔ جن کی بنیادوں کو ہلانا ممکن نہیں ہے۔

 فتح پوری مسجد بھی1857 کے غدر کے بعد دہلی کی سینکڑوں مساجد کے ساتھ سنسان اور ویران ہوگئی تھی۔ مسلمانوں پر غدر کے بعد انگریزوں کے بے انتہا مظالم نے انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور جو بچے ہوئے تھے وہ گھروں تک محدود ہوگئے تھے۔خوف اور دہشت کا ماحول تھا۔عبادت گاہیں بند ہوگئی تھیں۔اذان اور نمازکی اجازت نہیں تھی۔

حد تو یہ ہوگئی تھی کہ1857کے غدر میں سرکاری جائداد اور املاک زبردست نقصان کے سبب انگریزوں نے متعدد جائدادوں اور املاک کو نیلام کردیا تھا ۔جن میں فتح پوری مسجد بھی شامل تھی۔ اصل کہانی اس نیلامی کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ جس نے ملک میں ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کی مضبوط بنیادوں کے سبب فتحپوری مسجد کو ایک نازک وقت میں محفوظ رکھا بلکہ آج بھی سلامت ہے۔

نیلامی اور لالہ چنا مل

جب انگریزوں نے1870میں نیلام گھر سجایا تو فتح پوری مسجد کو خریدنے والا کوئی اور نہیں بلکہ چا ند نی چوک کا سب سے بڑا نام لالہ چنا مل تھا جو کہ اس وقت کپڑوں کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ان کی تاریخی چنا مل حویلی اب بھی چاندنی چوک میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ جس کی تعمیر1864 میں ہوئی تھی ۔ ایک خالص کاروباری ہونے کے سبب اس وقت انہوں نے مسجد کے اردگر متعدد دکانوں کے پیش نظر یہ سودا کیا تھا۔ اس کے لیے انیس ہزار روپئے ادا کیے تھے۔

انگریزوں نے نیلامی اس لیے کی تھی کہ مسجد کو مہندم کرکے نئی دکانیں اور مکان تعمیر کیے جائیں گے۔ اہم بات یہ رہی کہ لالہ چنا مل نے مسجد کو حاصل کرنے کے بعد منہدم نہیں کیا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت دہلی میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد تھی اور تمام عبادت گاہوں پر تالے پڑے تھے۔فتحپوری مسجد میں فوجی خیمہ زن تھے اور انگریزوں کے گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ اس لیے لالہ چنا مل نے فتح پوری مسجد کوبند رکھا تھا،وہ وقت بدلنے کا انتظار کرتے رہے۔

شاہی دربار میں مسجد کا معاملہ

ایسا ہی ہوا اور وقت بدلا 1877 میں انگریزوں نے دہلی میں مسلمانوں کے داخلے (یا رہنے) پر پابندی ختم کر دی۔ یہ 1877 کے دہلی دربار کے وقت کیا گیا تھا ، جس میں ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی شہنشاہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی فتحپوری مسجد کو مسلمانوں کو واپس کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

اس بارے میں فتح پوری مسجد کے موجودہ امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد بتاتے ہیں کہ دہلی کے اہم شخصیات اور شرفا نے اس وقت لال قلعہ میں شاہی دربار میں شرکت کی تھی۔مسجد میں نماز بالکل بند تھی،مسلمانوں نے یہ درخواست کی تھی کہ مسجد کو کھول دیا جائے۔ غدر کا اثر کم ہوچکا تھا جس کے بعد اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت ملی تھی۔اس کے بعد مسجد کو انگریزوں نے حاصل کیا اور مسلمانوں کو نماز کے لیے دستیاب کرائی۔

مسجد کی مسلمانوں کے حوالے

اہم بات یہ ہے کہ نیلامی میں فتح پوری مسجد کو حاصل کرنے والے تاجر لالہ چنا مل نے اپنے کاروباری فائدے کو نظر انداز کرتے ہوئے مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا۔

بقول پڑ پوتے سنیل موہن انگریزوں نے ہی فتح پوری مسجد کو واپس کرنے کے عوض میں لالہ چنا مل کو میوات میں دو گاوں دئیےتھے۔ اس وقت دہلی کے مسلمانوں میں بے حد بے چینی تھی کیونکہ نیلامی سے قبل انگریزوں نے فتح پوری مسجد کو چھاونی اور اصطبل بنا دیا تھا۔جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات یوں بھی مجروح ہورہے تھے۔ لالہ چنا مل نے دو گاوں خوشدلی سے قبول کئے اور مسلمانوں کو مسجد واپس کردی ۔

awaz

چنامل خاندان کے ساتھ رشتوں اور یادوں کو مولانا مفتی مکرم نے قیمتی قرار دیا 

چنامل خاندان رواداری کی علامت ۔ مفتی مکرم

فتح پوری مسجد اس وقت اپنی خستہ حالی کے لیے موضوع بحث ہے لیکن حقیقت ہے کہ ملک کی یک جہتی اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کی بڑی اور بے مثال کہانیوں کی گواہ ہے اور انہی پر قائم بھی ہے۔

فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد کہتے ہیں کہ ۔۔ چنا مل خاندان بہت ہی روشن خیال اور روادار رہا ہے۔ غدر اور اس کے بعد جو کچھ ہوا تو تاریخ کا حصہ ہے لیکن ان کی جن نسلوں سے ہمارا تعلق رہا ہے وہ ایک ذاتی تجربہ ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ چنا مل خاندان مذہبی رواداری کی مثال ہے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا علمبردار ہے۔ بھائی چارے پر یقین رکھتا ہے۔ دولت کے نشے اور گھمنڈ سے پاک رہا تھا یہ خاندان ۔کاروباری ہونے کے باوجود انسانی جذبات اور مذہبی فرائض کو اہمیت دیتا رہا یہ خاندان ۔ ان کے دادا مرحوم مفتی اعظم محمد مظہر اللہ کے اس خاندان کے ساتھ بہت گہرے رشتے رہے ۔لالہ چنا مل خاندان ان سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔

نسل در نسل کی دوستی تھی

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ میرے والد مرحوم مولانا مفتی محمد احمد ایک دندان ساز تھے وہ بلیماران میں مشہور و معروف ڈاکٹر یوسف کے معاون تھے ،انہیں سے کام سیکھا تھا اور اپنے ہلکے ہاتھ اور مہارت کے سبب مریضوں میں بہت مقبول تھے۔ساتھ ہی مسجد فتحپوری میں نائب امام بھی تھے۔جب انہوں نے اپنا کام شروع کیا تو ڈاکٹر یوسف کے متعدد پرانے مریض ان کے والد مرحوم کے کلینک آنے لگے تھے جن میں ان کے پوتے لالہ دوارکا ناتھ اور لالہ راجناتھ بھی شامل تھے۔

مولانا مفتی مکرم یادوں میں جھانکتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر تہوار خاص ہوا کرتا تھا۔کیا عید اور کیا ہولی۔ ہر تہوارکے موقع پر پکوانوں کی شکل میں محبت بانٹی جاتی تھی۔ سب مل کر بیٹھا کرتے تھے۔خوب محفلیں سجتی تھیں۔

عدالت میں گواہی بھی دی تھی

لالہ چنا مل کے دو وارث ان کے پوتے لالہ راجناتھ اور لالہ دوارکا ناتھ کا بھی فتح پوری مسجد سے بہت لگاو تھا۔ بقول مولانا مفتی مکرم میں انہیں اپنے بچپن میں دیکھا تھا ،وہ فتح پوری مسجد میں آیا کرتے تھے۔ میرے والد مرحوم سے بہت دوستی تھی۔ تہواروں میں بہت رونق رہتی تھی۔وہ بہت ملنسار اور روادار لوگ تھے۔

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ ایک وقت ہمارے خاندان میں کچھ تنازعہ ہوگیا تھا ،میرے والد کے بڑے بھائی نے مقدمہ کردیا تھا ،مسئلہ مسجد کے کمرے کا تھا جس میں ہم رہا کرتے تھے۔ اس وقت میرے والد کے مقدمہ میں لالہ دوارکا ناتھ نے گواہ کے طور پر پیش ہوکر یہ گواہی دی تھی کہ اس کمرے میں شروع سے ہی ہمارا خاندان رہا کرتا تھا ۔جس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔

مولانا مفتی مکرم کے مطابق ان کے چنامل کا خاندان ان کے والد سے دانتوں کا علاج کرانے کلینک میں آیا کرتا تھا۔ان کے والد مسجد کی رہائش گا ہ میں ہی پریکٹس کیا کرتے تھے ،جہاں وہ امام بھی تھے۔

حویلی اور وارث

چاندنی چوک میں آج ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہے چنامل حویلی موجود ہے۔ یقینا خستہ حال ہے لیکن یادوں کے خزانہ کے سبب انمول ہے۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ جس میں ان کی چھٹی نسل رہتی ہےجس کو آج بھی لالہ جی کے فیصلہ پر فخر ہے۔جسے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال ہی مانتے ہیں ۔ لالہ چنا مل کے ایک پڑ پوتے سنیل موہن ہیں جو اس جائداد کے سب سے بڑے حصے کی دعویداری کرتے ہیں ۔باقاعدہ انٹر نیٹ پر اس حویلی کی تشہیر کررہے ہیں بلکہ پرانے واقعات کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔

سنیل موہن کےترجمان امیت واہی نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایاکہ تاریخ یہی بتاتی ہےکہ لالہ جی نےفتح پوری مسجدکومسلمانوں کےحوالہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلمانوں نےانہی اس کےعوض دوگاوں دئیےتھے۔یہ خاندان کی مذہبی رواداری کا ثبوت ہے کیونکہ لالہ چنا مل ایک کامیاب تاجر تھے انہوں نے کاروباری فائدے کے لیے ہی مسجد کو نیلامی میں خریدا تھا لیکن جب اس سے مسلمانوں کے جذباتی لگاو کو محسوس کیا تو یہ قدم اٹھایا۔

لالہ چنامل کے ایک اور پڑ پوتے انل پرشاد کا کہنا ہے کہ میں اس حویلی کبھی دور نہیں ہوسکتا۔یہ ہماری وراثت کی شان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پرانی یادیں ہی ہمارے لیے خزانہ ہیں ۔جو آج بھی ہمارے لیے ایک مثبت پیغام دے رہی ہیں۔

awaz

چنامل خاندان کے وارثوں میں سے دائیں جانب سنیل موہن اور دائیں جانب انل پرشاد

عمارت کمزور مگر فرقہ وارانہ اتحاد کی مضبوط علامت 

بلا شبہ فتح پوری مسجدکو آثار قدیمہ نے حالانکہ قومی یاد گار کا درجہ نہیں دیا ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت اس کو توجہ کا مرکز بناتی ہے۔جس کو شاہ جہاں کی ایک بیگم فتح پوری نے 1650میں تعمیر کرایا تھا۔ دوسرا اس کا مقام جو کہ چاندنی چوک ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔اس کے ساتھ دوسری جانب لال قلعہ ہے جس پر ترنگا شان سے لہراتا ہے۔

بلاشبہ یہ مسجد آج اپنی کمزور بنیادوں کے سبب سرخیوں میں ہے ،لیکن اس سے جڑی یادوں میں ایسی کہانیاں ہیں جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو طاقت اور استحکام دیتی ہیں۔

ضرورت ہے جیسے چنا مل خاندان نے اپنی وراثت کو سنبھال کر رکھا ہے ویسے ہی فتح پوری مسجد کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ ہندوستان میں مذہبی رواداری،بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جیتا جاگتا نمونہ بھی ہے۔