نئی دہلی : آواز دی وائس
ہندوستان کی تہذیب کا ایک حصہ ہماری وراثت ہے ،جس کی حفاظت ملک ہر کسی کا فرض ہے ۔ ملک اپنی تہذیب اور ثقافت کے سبب ہی یاد رکھا جاتا ہے ،ہندوستان میں وراثت کے نگہانوں کی لاتعداد کہانیاں ہیں جو کہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو طاقت بخش رہی ہیں ،آواز دی وائس میں 2025میں جو اہم اور دلچسپ کہانیاں شائع ہوئی ہیں انہیں آپ کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے

ایک برہمن : جس نے قرآن پاک کو گھر گھر پہنچایا
قرآن پاک کے نسخے عام مسلمانوں تک پہنچانے کا عظیم کام کسی عالم دین نے نہیں بلکہ ایک برہمن نے انجام دیا۔ اس شخصیت کو ہندوستان کی تاریخ میں منشی نول کشور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں جب پرنٹنگ کا انقلاب آیا تو نول کشور نے لکھنو میں ہینڈ پریس قائم کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی اشاعت کا آغاز کیا۔ ان میں قرآن پاک کے نسخے بھی شامل تھے۔نول کشور کی کوششوں سے قرآن پاک ہندوستان ہی نہیں بلکہ برصغیر اور چین سے ترکی تک مسلمانوں کے گھروں تک پہنچا۔ اس سے پہلے قرآنی نسخے نایاب تھے اور صرف امرا تک محدود تھے۔ سستے اور آسان نسخوں نے ناظرہ اور ترجمہ دونوں کو عام مسلمانوں کے لیے ممکن بنایا۔ قرآن پاک کے احترام میں نول کشور کی خدمات ایک روشن مثال سمجھی جاتی ہیں۔

گنپتی کی روایت میں حبیب شیخ کا کردار
گنیش اُتسو کو صرف ایک مذہبی تہوار نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ سماجی یکجہتی اور باہمی ہم آہنگی کی ایک مضبوط علامت بھی ہے۔ مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں یہ تہوار الگ الگ انداز میں منایا جاتا ہے۔ کہیں بڑی دھوم دھام ہوتی ہے اور کہیں سادگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نندید ضلع کے لوہا تعلقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سوگاو میں گزشتہ 63 برسوں سے ایک گاؤں ایک گنپتی کی منفرد روایت چلی آ رہی ہے۔ اس روایت میں دکھاوا نہیں بلکہ عوامی جذبہ اور اتحاد نمایاں نظر آتا ہے۔

ایک خاندان کے تین چانسلرز - علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور داودی بوہرہ برادری کے درمیان گہرا تعلق
ایک خاندان کے تین چانسلر ہونا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کا ایک منفرد اعزاز ہے جو بوہرہ برادری کی روحانی قیادت کو حاصل ہے۔ اس برادری کے تین روحانی پیشوا یعنی سیدنا اے ایم یو کے چانسلر رہے۔ یہ عہدہ محض رسمی نہیں رہا بلکہ انہوں نے عملی طور پر یونیورسٹی کی خدمت کر کے ایک مثال قائم کی۔کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ داودی بوہرہ برادری نے ہر اہم مرحلے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ساتھ دیا ہے۔ چاہے معاملہ تعمیر کا ہو یا تعلیمی ترقی کا ہر موقع پر سیدنا پیش پیش نظر آئے۔ اقلیتوں میں ایک نہایت چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود داودی بوہرہ برادری نے ہمیشہ فراخ دلی سے تعاون کیا اور اے ایم یو کی مضبوطی اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

اردو زبان سکھانے کا چلتا پھرتا ادارہ ---دویہ رنجن پاٹھک
اردو زبان سے محبت اور اس کے فروغ کے لیے کام کرنے والے افراد آج بھی معاشرے میں موجود ہیں۔ اردو کو زندہ اور مضبوط رکھنے کے لیے کئی لوگ مسلسل سرگرم ہیں اور ان کی کوششوں سے زبان اور سماج دونوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ دویہ رنجن پاٹھک بھی ایسے ہی فعال افراد میں شامل ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو زبان سیکھی بلکہ اب اردو سکھانے کا ایک متحرک مرکز بن چکے ہیں۔دویہ رنجن پاٹھک کی ٹیم میں نہال الدین عثمانی اور ڈاکٹر آرتی برنوال بھی شامل ہیں۔ آرتی برنوال سنسکرت میں ڈاکٹریٹ ہیں اور اس وقت مہاراشٹر میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہ تمام لوگ ایک ٹیم کی صورت میں کام کرتے ہیں اور مختلف مقامات پر کیمپ لگا کر اردو سکھاتے ہیں۔ عام طور پر زبان کی تعلیم کلاس روم تک محدود ہوتی ہے لیکن پاٹھک صاحب جہاں اور جب موقع ملتا ہے اردو کی کلاس شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کام مکمل طور پر مفت اور خالص شوق اور زبان سے محبت کے تحت انجام دیا جا رہا ہے۔

کیوں رُکتا ہے جگن ناتھ رتھ ، یاترا کے دوران ایک مزار کے سامنے ؟
بھگوان جگن ناتھ کا رتھ ایک ایسے مزار کے سامنے رکتا ہے جو کسی پیر یا فقیر کا نہیں بلکہ بھگوان جگن ناتھ کے ایک مسلمان عقیدت مند کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ عقیدت مند اپنی شاعری اور بھجنوں کے ذریعے شری جگن ناتھ سے گہری محبت کا اظہار کرتا رہا۔ اس کے لکھے گیت برسوں تک مندر میں گونجتے رہے۔ مگر مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے جگن ناتھ مندر میں درشن کی اجازت نہ مل سکی۔ یہ محرومی اس کے دل میں رہ گئی اور اسی کرب کے ساتھ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے باوجود آج بھی جگن ناتھ کا رتھ اس کے مزار کے سامنے رک کر عقیدت کو سلام پیش کرتا ہے۔ یہ واقعہ گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی ہم آہنگی کی گہری جڑوں کی ایک خوبصورت مثال ہے۔