کیوں رُکتا ہے جگن ناتھ رتھ ، یاترا کے دوران ایک مزار کے سامنے ؟

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 26-06-2025
کیوں رُکتا ہے جگن ناتھ رتھ ، یاترا کے دوران ایک مزار کے سامنے ؟
کیوں رُکتا ہے جگن ناتھ رتھ ، یاترا کے دوران ایک مزار کے سامنے ؟

 



کولکتہ/پوری  بھگوان جگن ناتھ کا رتھ  ایک مزار کے سامنے رکتا ہے، وہ مزار کسی پیر یا فقیر کا نہیں بلکہ بھگوان جگن ناتھ کے ایک مسلمان عقیدت مند کا ہے ،ایک ایسا عقیدت مند ،جس نے اپنی شاعری سے  شری جگن ناتھ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا تھا،جن کے لکھے گیت اور بھجن اس مندر میں گونجتے رہے، لیکن  اسے مسلمان ہونے کے سبب جگن ناتھ مندر میں درشن کے لیے داخلہ نہیں ملا،اس کی دلی مراد پوری نہیں ہوسکی اور اسی غم کے ساتھ اس کی موت ہوگئی ،یہ ایک عجیب کہانی ہے ،جسے پڑھ کر یقینا آپ عقیدت اور بھکتی کی گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو اس بات کا پیغام دیتا ہے ملک میں گنگا جمنی تہذیب کی جڑیں بہت گہری ہیں ؟یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے بھگوان  کا رتھ ایک مسلمان عقیدت مند کے مزار کے سامنے رکتا ہے  جسے مندر میں مذہب کی بنیاد پر داخلہ نہیں مل سکا تھا ۔

پہلے بات رتھ یاترا کی

ہندو مذہب کا ایک قدیم اور روحانی طور پر اہم تہوار جگن ناتھ پوری رتھ یاترا ہے۔ یہ تہوار ہندوستتان کے بڑے مذہبی میلوں میں سے ایک ہے، اور اپنی انفرادیت کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی معروف ہے، کیونکہ اس میں ہندو عقیدے کے تین مرکزی دیوتاؤں کو ان کے مقدس مندروں سے باہر لا کر عوام کے درمیان رتھ پر بٹھا کر جلوس کی شکل میں لے جایا جاتا ہے۔یہ رتھ یاترا نہ صرف مذہبی جوش و خروش کا مظہر ہے بلکہ صدیوں پرانی روایت کی علامت بھی ہے۔ تہوار کا سب سے بڑا اور مرکزی جلوس بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ کے شہر پوری میں نکالا جاتا ہے، جبکہ اس کی چھوٹی سطح پر تقلید مغربی ریاست گجرات اور دیگر علاقوں میں بھی کی جاتی ہے۔یہ رتھ یاترا دنیا کی سب سے قدیم مذہبی جلوسوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بھگوان جگن ناتھ، ان کے بڑے بھائی بالبھدرا اور چھوٹی بہن سبھدرا کی مقدس مورتیوں کو جگن ناتھ مندر سے نکال کر ایک مخصوص جلوس کی صورت میں ایک اور مندر میں لے جایا جاتا ہے۔ عقیدے کے مطابق، یہ دوسرا مندر ان کی ’خالہ‘ کا گھر سمجھا جاتا ہے۔یہ رتھ یاترا نہ صرف عقیدت مندوں کے لیے روحانی تجربہ ہوتا ہے بلکہ ایک عظیم الشان ثقافتی مظہر بھی ہے، جس میں لاکھوں یاتری حصہ لیتے ہیں اور دیوتاؤں کے رتھ کو کھینچنے کو اعزاز سمجھتے ہیں

سال بیگ: بھگوان جگن ناتھ کے عقیدت مند

سال بیگ ایک منفرد اور روحانی شخصیت کے حامل مسلمان شاعر تھے، جنہیں بھگوان جگن ناتھ کے گہرے عقیدت مند کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ سترہویں صدی کے وسط کے دور میں زندہ تھے اور ان کا تعلق مغل سلطنت سے تھا۔ ان کے والد لال بیگ مغل صوبیدار تھے،لال بیگ لال بیگ کو جہانگیر قلی خان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، مغل بادشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں ایک سال (1607-1608) کے لیے بنگال کے صوبے دار تھے۔ اپنے ایک فوجی دورے کے دوران اڑیسہ میں ایک خوبصورت بیوہ ہندو برہمن خاتون سے شادی کی، ساتھ ہی اپنی بیوی کو اس کے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی تھی جس کے بطن سے سال بیگ پیدا ہوئے۔ ماں کے قریب رہنے کے باعث اس کو شری جگن ناتھ سے  بچپن ہی سے دلچسپی ہو گئی کیونکہ اس کی ماں ان کی پکی بھکت تھی۔

عقیدت اور مایوسی

نیل منی مشرا کے مطابق جو سال بیگ پر تحقیقی کام کر چکے ہیں، سال بیگ نے اپنے والد کے ساتھ ایک فوجی مہم میں شرکت کی تھی۔ اس مہم کے دوران وہ شدید زخمی ہو گئے۔ جب ان کی زندگی کی امیدیں معدوم ہونے لگیں تو ان کی ہندو ماں نے انہیں بھگوان کرشن کا نام لینے کا مشورہ دیا۔ روایت ہے کہ اس کے بعد وہ معجزانہ طور پر صحت یاب ہو گئے۔اس تجربے نے ان کے دل میں بھگوان کرشن کے لیے گہری عقیدت پیدا کر دی۔ چونکہ بھگوان جگن ناتھ کو بھگوان کرشن کا روپ مانا جاتا ہے، اس لیے سال بیگ نے ارادہ کیا کہ وہ پوری جا کر جگن ناتھ مندر میں ان کے درشن  کریں۔ مگر جب وہ وہاں پہنچے، تو صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پر پجاریوں نے انہیں مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ حالانکہ رتھ یاترا، خود دیوتاؤں کے اردگرد گھومنے والی عالمگیر محبت اور عقیدت کی علامت ہے- ایسے میں انہوں مندر کے باہر بیٹھ کر بھگوان کی پوجا شروع کر دی ۔ گیت اور بھجن لکھنے شروع کئے ۔ آہستہ آہستہ ان کے بھجن دوسرے عقیدت مندوں کے ہونٹوں پر بھی آنے لگتے ہیں۔ لیکن مایوس ہو کر سال بیگ برنداون چلے گئے، جو بھگوان کرشن کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔ وہاں انہوں نے سادھو سنتوں کے ساتھ رہ کر کرشن بھکتی کے رموز سیکھے اور روحانی تربیت حاصل کی۔

کچھ عرصے بعد وہ واپس پوری آئے اور بھگوان جگن ناتھ کی شان میں شاعری لکھنے لگے۔سال بیگ کی شاعری اوڈیہ زبان کی بھکتی روایت میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں خلوص، عقیدت اور روحانیت سے لبریز ہیں، اور انہیں نہ صرف ہندو بلکہ مختلف طبقات میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ سال بیگ اڑیسہ واپس آتے ہی بیمار ہو گئے اس کا جسم تقریباً جواب دے چکا تھا تو اس نے بھگوان جگن ناتھ سے دعا کی کہ کم از کم اسے ایک بار درشن کرا دیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی موت کے بعد موت کے بعد ان کا مقبرہ جگناتھ مندر سے گنڈیچا مندر کے راستے میں بنایا گیا ۔ چند ماہ کے بعد جب جگن ناتھ کا رتھ نکل رہا تھا تو رتھ اس بھکت کے گھر کے سامنے سے آگے نہیں بڑھا،تمام عقیدت مند رتھ کو کھینچتے ہوئے تھک گئے لیکن رتھ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ ایسے میں سب پریشان ہو گئے اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ پھر کسی نے بادشاہ کو سال بیگ کے بارے میں بتایا اور اس کی عقیدت اور اقوال سے آگاہ کیا۔ تب بادشاہ نے پجاری سے مشورہ کیا اور سب سے کہا کہ عقیدت مند سال بیگ کو سلام کریں۔جس کے بعد مقامی لوگوں نے سال بیگ کے نعرے لگائے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا تو رتھ چل پڑا ۔ تب سے ہر سال خالہ کے گھر جاتے ہوئے جگن ناتھ رتھ یاترا کے دوران بھگوان کا رتھ مندر سے نکل کر تین کلومیٹر دور واقع مقام تک جاتا ہے، تو عقیدت مندانہ روایت کے طور پر رتھ کو سال بیگ کے مزار  کے سامنے کچھ وقت کے لیے روکا جاتا ہے۔ یہ عمل اس مسلمان شاعر اور عقیدت مند کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جس نے مذہبی سرحدوں سے بلند ہو کر عشقِ حقیقی کا پیغام دیا۔

سال بیگ اور جگن ناتھ بھگوان کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ:

✅خدا مذہب، ذات یا جنم سے امتیاز نہیں کرتا

✅صرف سچی بھکتی ہی اسے پانے کا راستہ ہے

✅جگن ناتھ سب کے ہیں

آج بھی سال بیگ  کے بھجن جگن ناتھ مندر میں گائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک زندہ مثال ہے کہ بھکتی ہی خدا کے دل تک پہنچنے کی راہ ہے۔