ایک خاندان کے تین چانسلر ۔۔۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ انوکھا اعزاز بوہرہ برادری کی روحانی قیادت کو حاصل ہے، جس کے تین روحانی پیشوا یعنی ‘سیدنا ’ اے ایم یو کے چانسلر رہے۔ بلکہ اس عہدہ کو کاغذی ثابت نہیں ہونے دیا بلکہ عملی طور پراے ایم یو کے لیے جو کیا وہ خود ایک مثال بن گیا ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ داودی بوہرہ برادری نے ہر موڑ پر اے ایم یو کا ساتھ نبھایا ہے،بات تعمیر کی ہو یا ترقی کی ،ہرمعاملہ میں سیدنا پیش پیش رہے اوراقلیتوں میں ایک سب سے چھوٹی اقلیت کے باوجود داودی بوہرہ برادری نے ہمیشہ تعاون کے لیے اپنے ہاتھ کو لمبا رکھا ہے
اے ایم یو کے ریٹائرڈ پبلک ری لیشن افیسر اور تاریخ داں ڈاکٹرراحت ابرار کہتے ہیں کہ ادارے کا بوہرہ برادری سے تعلق 1920 میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہونے سے بہت پہلے سے ہے۔ 1903میں ممبئی کی انجمَنِ اسلام میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں اسے یونیورسٹی بنانے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔اس تاریخی کانفرنس میں کئی ممتازرہنما اورادبی شخصیات نے شرکت کی تھی۔ جب کہ داؤدی بوہرہ برادری کے رہنماؤں نے بھی ادارے کی تعمیرو ترقی میں بھرپورمدد فراہم کی تھی ۔
سیدنا طاہر سیف الدین اے ایم یو کے پہلے چانسلر تھے جن کے دور میں چار ممالک کے سربراہان نے درسگاہ کا دورہ کیا تھا ،نچلی تصویر میں شاہ ایران کے ساتھ
راحت ابرار کہتے ہیں کہ اے ایم یو کے قیام کے بعد ادارےاور داودی بوہرہ کے درمیان جو وابستگی رہی،اس کا آغاز 1946میں ہوا تھا،جب اے ایم یو نے51 ویں داعی سیدنا طاہرسیف الدین کو ڈاکٹر آف تھیالوجی کی ڈگری پیش کی تھی۔ جبکہ 1953 میں سیدنا سیف الدین نے یونیورسٹی کی چانسلر شپ قبول کی۔ وہ 1965میں انتقال تک تقریباً 12 سال تک اس پر فائز رہے۔ راحت ابرار کا کہنا ہے کہ سیدنا طاہرسیف الدین کے دور میں چار مسلم ممالک کے رہنماؤں نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا دورہ کیا،جن میں1955 میں سعودی عرب کے شاہ سعود بن عبدالعزیز کا دورہ تھا ،اس کے بعد 1956 میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے اے ایم یو کا رخ کیا تھا ۔ پھر1958 میں شاہ ظہیر شاہ، افغانستان کے آخری بادشاہ نے دورہ کیا جبکہ 1960 میں مصر کے صدر جمال عبد الناصران میں شامل تھے ۔
سیدنا برہان الدین نے اپنے والد کے بعد چانسلر کی ذمہ داری سنبھالی تھی
سیدنا محمد برہان الدین کے بعد 1965میں اپنے والد کے جانشین بنے۔ 52 ویں روحانی پیشوا کی حیثیت سے 1966 میں سیدنا محمد برہان الدین نے علی گڑھ کا دورہ کیا۔ تواے ایم یو نے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں وہی ڈگری پیش کی، جو ان کے والد سیدنا طاہر سیف الدین کو پیش کی تھی۔اس دورے میں مسلم یونیورسٹی ہائی اسکول یعنی منٹو سرکل کو سیدنا طاہر سیف الدین کے نام منسوب کیا گیا ۔بوہرہ برادری نے اس اسکول کو نئی شکل دی ۔
سال 1999 میں اے ایم یو کی درخواست پرسیدنا برہان الدین نے 1999 میں چانسلر شپ قبول کی اور 2002 تک اس پر فائز رہے۔راحت ابرار نے مزید کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بوہرہ برادری نے ادارے کے لیے جو کچھ کیا وہ ایک مثال ہے۔ برادری نے ادارے کے ساتھ تعلق یا رشتے کو عملی طور پر نبھایا ہے۔روحانی قیادت کی ہر نسل نے اس کا احترام کیا۔بلکہ اس رشتے کو مستحکم کرنے کے لیے کام کیا ۔
سیدنا مفضل سیف الدین داودی بوہرہ برادری کے تیسرے چانسلر
انہوں نے کہا کہ آج یہ وراثت 53ویں داعی ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کے ساتھ جاری ہے۔ کیونکہ سیدنا برہان الدین کےانتقال ایک سال بعداے ایم یو نے سیدنا مفضل سیف الدین سے رابطہ کیا۔ درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے محترم والد اور دادا کی طرح یونیورسٹی کی چانسلر شپ قبول کریں۔ چند ماہ بعد اپریل 2015 میں داعی ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کو اے ایم یو نے چانسلر منتخب کرنے کا اعلان کیا۔جس کےسبب ایک ہی خاندان کی تین نسلوں نے یہ عہدہ سنبھال کر تاریخ رقم کی ہے۔انٹرویو میں راحت ابرار نے کہا کہ قابل غور بات یہ ہے کہ داودی بوہرہ اور اے ایم یو کا رشتہ صرف چانسلرشپ تک محدود نہیں رہا۔ داؤدی بوہرہ برادری نے اے ایم یو کے مالی وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں نمایاں تعاون فراہم کیا ہے۔ اے ایم یو کے سینیٹری گیٹ کا افتتاح سیدنا مفضل سیف الدین نے کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انسٹیٹیوٹ آف فارمیسی کے قیام اور تعمیر کا آغاز کیا، جسے سیدنا مفضل سیف الدین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔