پاکستانی شاعر رئیس امروہوی نے گاندھی کی موت کا غم کیسے منایا؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
پاکستانی شاعر رئیس امروہوی نے گاندھی کی موت کا غم کیسے منایا؟
پاکستانی شاعر رئیس امروہوی نے گاندھی کی موت کا غم کیسے منایا؟

 

 

awaazthevoice

ثاقب سلیم،نئی دہلی

نہ دیکھو کے آخر جیا کس طرح

 یہ دیکھو کہ مر کر وہ کیا بن گیا

غرض یہ جل بُجھ کر گاندھی کا جسم

عجب نسخۂ کیمیا بن گیا

یہ قطعہ اردو زبان کے مشہور شاعر رئیس امروہوی نے 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل کی خبر سن کر لکھا تھا۔ ریاست اتر پردیش کے تاریخی ضلع امروہہ کے رہنے والے رئیس امرہوی مہاتما گاندھی کے قتل سے محض چند ہفتے قبل ہی پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تقسیم ہند کے بعد انہیں جو تکلیف و مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ سنہ 1948 میں جناح کی تفرقہ انگیز سیاست کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا:

قائدِان لیگ کی شانِ مسیحائی تو دیکھ۔

دس کروڑ افراد قربانی کا بکرا بن گئے

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ رئیس کو ’اسلام ‘کےماننے والے لوگوں نے قتل کیا تھا۔ گاندھی پر لکھا ہوا ان کا قطعہ کبھی پاکستان میں شائع نہیں ہوا، لیکن انہوں نے عوامی انٹرویوز میں اسے پڑھا تھا۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ تقسیم کے وقت وہ دہلی میں تھے۔ سیاست دانوں نے مذہب کے نام پر ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کے خلاف کردیا تھا۔

دہلی کے مسلمانوں پر پرتشدد حملہ کیا گیا۔ کیونکہ مغربی پنجاب یا کسی اور جگہ سے ہندوؤں پر حملوں کی خبریں آ رہی تھیں۔ اس زمانے میں دہلی کے مسلمانون کی واحد امید مہاتما گاندھی تھے۔ ستمبر1947 میں جب گاندھی دہلی آئے تو لوگوں کو لگا کہ تشدد رک جائے گا۔ اور حقیقت میں تشدد کافی حد تک رک گیا، جس نے جنونیوں کو مشتعل کردیا۔

رئیس کہتے ہیں کہ کہا کہ گاندھی کو ایک جنونی اور کٹروادی ہندو ناتھورام گوڈسے نے اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے اس وقت تشدد کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو قریب لانے کی آخری امید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ رئیس کافی مایوس ہوگئے، انہوں نے اس موقع پر ایک قطعہ لکھا:

آہ! گاندھی کی شہادت وہ بھی ایک ہندو کے ہاتھ۔

 موت سے اسے کہتے ہیں،جس کا نام ہے شانِ حیات

معجزہ ایک پستہ قد انساں کا بھارت میں نجات

گوتم اور گیتا کا ایک اوتار تھی گاندھی کی ذات

رئیس کا خیال تھا کہ گاندھی ایک مثالی آدمی تھے اور وہ ہر اس چیز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، جو ایک سچے انسان کو چاہیے تھا۔ ان کے خیال میں مذہبی عقیدہ سچائی کے مقابلے میں ثانوی تھا اور گاندھی نے خود کو زیادہ تر مسلمانوں سے بہتر انسان ثابت کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں جناح پر بالواسطہ حملے کی مانند تھیں۔ انہوں نے ایک جگہ اور لکھا:

فقط ہندوستان کیا، ایشیا کو ناز اس پر تھا

لنگوٹی بند لیکن وقت کے شاہوں سے بڑھ کر تھا

وفا کا، عزم کا، اثر کا، جرات کا پیکر تھا

وہ ہندو تھا مگر لاکھوں مسلمانوں سے بڑھ کر تھا

رئیس نے اپنے اشعار میں یہ بھی بابر کرنے کی کوشش کی کہ کہ مہاتما گاندھی کو حقیر نہ سمجھا جائے۔کیوں ان کے الفاظ میں:

سر اس کا چھو رہا تھا آسمان کو

قدم اس کا زمینوں پر گڑا تھا

حرکت سے نہ گاندھی جی کو دیکھو

یہ پستہ قد ہمالیہ سے بڑا تھا

ان کے خیال میں گاندھی کا فلسفہ ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور مرنے کے بعد بھی ان کے نظریات قومی نظریے کی شکل اختیار کر لیں گے۔ رئیس نے لکھاتھا:

جو گاندھی کی تجویز وہ تدبیر تھی

وہ بھارت کی تقدیر بن جائے گی

وجود اس کا ہے آج ایک مشکِ خاک

وہی خاک ایک بیج بن جائے گی

رئیس نے مزید لکھا:

لاکھ گاندھی جی زمانے سے اٹھے

یاد ان کی راہ بھی رہبر بھی ہے

رئیس نے مہاتما گاندھی کو آزادی ہند کا سہرا دے کر بہترین خراج تحسین پیش کیا:

دنگ تھے انگریز گاندھی جی کے ہر اعلان سے

لاکھ دشمن تھے مگر بھاگا نہ وہ میدان سے

ہے فقط جس کی توقع صاحبِ ایمان سے

موت کو خوش آمدید اس نے کہا اس شان سے

پاکستان کے ایک شاعر رئیس کی شاعری میں موجودغم اس محبت کا ثبوت ہے جس کا گاندھی جی عملی نمونہ تھے۔ گاندھی جی اپنے دور حیات میں مختلف مذہب، نسل اور قوموں کے درمیان محبت کے پھول بانٹتے رہے۔

رئیس امرہوی کو پورا یقین تھا کہ گاندھی ہندوؤں اور مسلمانوں کو دوبارہ متحد کرسکتے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندوستانیوں میں کس قسم کا سماج پیدا کرنا چاہتے تھے۔