ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں تھے: ہم آہنگی کی چند مثالیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-05-2021
ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں تھے
ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں تھے

 

 

 بجنور

راجیو چودھری اپنے کنبے کے ساتھ ضلع بجنور کے قصبہ کیرات پور میں رہتے ہیں۔ 23 اپریل کو ان کے چھوٹے بھائی چیترنجن چودھری (46) انتقال کر گئے۔ اسپتال میں بھاگتے ہوئے بھی وہ اپنے بھائی کو نہیں بچا سکے ۔ راجیو بیان کرتے ہیں کہ انہیں پہلے کیرت پور کے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا تب ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن تھا۔ لیکن ان کی طبیعت خراب ہونے کے بعد ، اسپتال نے ہاتھ کھڑے کر دئے اور کووڈ ہونے کا شبہ ظاہر کیا ، حالانکہ انہوں نے باضابطہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔ ہم نے اپنی طرف سے کوشش کی جو ہم کر سکتے تھے ، لیکن سب بیکار ۔ ایک بیگ میں بند کر کے ہمارے بھائی کو انہوں نے ہمارے حوالے کردیا۔

راجیو چودھری کہتے ہیں کہ اس وقت وہ بہت بے بس تھے اور جب وہ اس مشکل وقت میں اپنے بھائی کا انتم سنسکار کررہے تھے انہوں نے اپنے کندھے پر ایک ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا ۔ یہ ہاتھ میرے دوست حسن کا تھا۔ گنگا بیراج پر اپنے بھائی کی چتا کے ساتھ صرف حسن اور میں کھڑے تھے۔ میرے بزرگ والد اور بھتیجا کچھ دور پر تھے۔ کچھ قریبی رشتے دار بھی وہاں پہنچ گئے تھے پر وہ بھی دور کھڑے تھے۔حسن میرے بالکل قریب تھا ، وہ انتم سنسکار میں پوری طرح شامل تھا۔ حسن نے وہ سب کچھ کیا جو میں اپنے بھائی کے لئے کر رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ راجیو ، میں ہر مشکل میں آپ کے ساتھ ہوں۔

راجیو نے وضاحت کی کہ اس ملک میں حسن اور راجیو کو منافرت کی کوئی موسمی ہوا تقسیم نہیں کرسکتی ۔ ہم سب سمجھتے ہیں۔ آج راجیو چودھری مصیبت میں تھے تو حسن علی ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ بجنور کے قاضی پڈا کے رہائشی حسن علی نے بتایا کہ راجیو اس کا دوست ہے اور یہ ایک مشکل وقت تھا ، اب اگر وہ اس مشکل وقت میں بھی اس کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے تو میری دوستی پر لعنت تھی ۔ موت کا ایک دن طے ہے لیکن اس بحران میں ہمیں ایک دوسرے کو چھوڑنا نہیں ہے۔

کووڈ وائرس کی اس دوسری لہر نے پورے ملک میں تباہی مچا دی ہے۔ قبرستان سے شمشان تک لوگوں کی بھیڑ نظر آتی ہے۔ اس وقت ملک میں آکسیجن بحران پر حکومتوں کو تنقید کا سامنا ہے۔ دوسری طرف اسپتال میں علاج نہ کروانے کی وجہ سے غیر کووڈ مریض بھی دم توڑ رہے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار حقیقت سے یکسر مختلف ہیں اور ہر طرف سے بہت زیادہ بری خبریں موصول ہو رہی ہیں ۔ ایسے وقت میں جب بہت سارے قریبی رشتے دار اور کنبہ کے افراد بھی کووڈ کے شکار مریض سے دوری اختیار کر رہے ہیں ، تو انسان کی خاطر مختلف مذاہب کے لوگوں نے نفرت کو سبق سکھاتے ہوئے محبت کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ ایسی بہت ساری جگہوں سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں جہاں فوت ہونے والے ہندو کے انتم سنسکار کے لئے خاص طور پر مسلم برادری کے افراد نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لکھنؤ کانگریس کے رہنما طارق صدیقی بتاتے ہیں کہ لوگوں کو تو پورے ملک سے ایسی خبریں ضرور مل رہی ہیں جبکہ میں خود اس قسم کے واقعات کا شاہد ہوں ۔ ایک خاتون مایا دیوی پیر کے روز چل بسیں اور ان کا بیٹا اور بہو دونوں ہی اسپتال میں داخل ہیں۔ کوئی انہیں کندھا دینے والا نہیں تھا تب ذیشان ، مہدی اور عابد رضا نے نہ صرف انہیں کندھا دیا بلکہ مایا دیوی کے مذہبی عقیدے کے مطابق ان کی آخری رسومات بھی ادا کیں ۔

مظفر نگر کے نادر رانا بتاتے ہیں کہ ایسا ہی واقعہ یہاں بھی پیش آیا جس میں باہمی بھائی چارہ اور محبت کی ایک عمدہ مثال دیکھنے کو ملی۔ نادر نے بتایا کہ انوبھو شرما نامی ایک نوجوان کی ، جو ڈیری شاپ چلاتا تھا ، کی موت یہاں ہوگئی۔ اگرچہ اس کی رپورٹ منفی تھی ، لیکن اس کے خاندان کے صرف پانچ افراد کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی ۔ محمد یونس انوبھو کی دکان پر ان کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ انبھو شرما کے ساتھ محمد یونس کی بہت قربت تھی۔ محمد یونس نے انوبھو کے آخری سفر میں کنبہ کے ساتھ ہی رہے اور چتا کی آگ سے لے کر تمام ضروری کام مکمل کیے۔ محمد یونس بتاتے ہیں کہ انوبھو شرما ان کے اپنے بھائی کی طرح تھے ، وہ اپنے دین (مذہب) پر ہیں اور میں اپنی دین پر ہوں۔ لیکن دل کا رشتہ اس سے بھی بڑا ہے۔ میں نے وہی کیا جو میرے دل نے گواہی دی ۔

میرٹھ میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے ہندو عورت کی ارتھی کو کندھا دیا ۔ اس سے پہلے اندور اور الور میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ دہلی فسادات سے متاثرہ علاقے میں بھی مسلمانوں کے ذریعہ متعدد آرتھیوں کو کندھے دینے کے واقعات سامنے آئے۔ راجیو چودھری ، جو اپنے بھائی کو کھو چکے ہیں ، نے وضاحت کی کہ یہ سیاست ہی ہے جو نفرت پیدا کرتی ہے۔ ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے دور نہیں تھے ، اب جب لوگوں کو لگ رہا ہے کہ آخری وقت سب کا انا ہے تو وہ ہر بندھن کو توڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ بحران بہت بڑا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔