منصور الدین فریدی : نئی دہلی
ملک میں دو انتہائی مقبول اور کامیاب ماہر تعلیم ولی رحمانی اور خان سر یعنی کہ ندی کے دو کنارے ۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر کولکتہ میں مل گئے ،بند کمرے میں دو گھنٹے کی ملاقات ،کوئی رسمی خانہ پری نہیں تھی ، بلکہ نظریات اورسوچ کے اختلاف پر ایک سنجیدہ تبادلہ خیال تھا ۔ جس میں خیالات کا حقیقی ٹکراو نظر آیا ۔۔ مگر اہم بات تھی کہ دونوں نے ایک دوسرے کے مشن کی تعریف کی ۔ انسانی جذبے کی سراہنا کی ۔ جس کے ساتھ اب ملک کے تعلیمی حلقوں میں اس امکان پر بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا مستقبل میں ولی رحمانی اور خان سر تعلیم کے مشن ساتھ ساتھ یا ایک ساتھ بھی نظر آئیں گے ؟
دراصل ولی رحمانی نے سوشل میڈیا پر ایک طویل پیغام میں خان سر کے ایپی سوڈ پر سے پردہ اٹھایا ہے ۔کیونکہ ولی رحمانی کی خان سر کے ساتھ ملاقات اور انہیں اپنے امید گلوبل اسکول کے پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دینے پر تعلیمی حلقوں میں ہلچل کے بعد ایک طویل وضاحت پیش کرنی پڑ گئی ۔کیونکہ روز اول سے ولی رحمانی نے خان سر کے انداز یا طریقے پر سخت تنقید بلکہ مخالفت کی تھی اور نوجوانوں کو خان سر کی کلاسیز سے دور رہنے کی بھی ہدایت یا مشورہ دیاتھا ۔
ولی رحمانی نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ۔۔۔ میرے ماضی میں خان سر خان گلوبل اسٹڈیز پر تنقید اور ان کی حالیہ دعوت کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ لوگ خان سر کو میرے اسکول میں مہمان دیکھ کر حیران ہوگئے بلکہ سوال بھی کرنے لگے ہیں ۔
کیوں کی تھی مخالفت
ولی رحمانی کہتے ہیں کہ دراصل ۔۔۔ چند سال پہلے میں نے کھلے طور پر خان سر پر تنقید کی تھی اور لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ان کے یوٹیوب مواد کو فروغ نہ دیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے واقعی لگتا تھا کہ ان کے بعض لیکچر اسلاموفوبیا کو بڑھا رہے ہیں۔ میں آج بھی اس تنقید پر قائم ہوں۔ میں نے وہ ٹویٹس کبھی ڈیلیٹ نہیں کیں اور نہ ہی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹا۔جبکہ اس وقت میرا ان سے کبھی ملنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
پھر کیا ہوا
یاد رہے کہ ولی رحمانی نے ایک نوجوان ماہر تعلیم کی حیثیت سے اس وقت شہرت حاصثل کی تھی جبب اپنے اسکول کے پروجیکٹ کے کھٹائی میں پڑ جانے کے بعد سو سو روپئے سے مدد کرنے کی اپیل کی تھی ۔ جس کے بعد صرف دس دنوں میں دس کروڑ روپئے اکٹھا ہوگئے تھے اب خان سر کے ساتھ نظریاتی اختلاف اور پھر دوستی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔ ایک موقع پر پٹنہ میں ایک عوامی اجتماع کے دوران ان کے پرسنل اسسٹنٹ مجھ سے ملے اور بتایا کہ خان سر میرے کام کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس کی قدر کرتے ہیں اور مجھ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ اس کے بعد ان کے دفتر اور میرے درمیان چند رابطے ہوئے۔ لیکن اس وقت میں ملاقات کے لیے مطمئن نہیں تھا اور اپنی عوامی تنقید اور تحفظات کے بارے میں واضح تھا۔ اسی وجہ سے اس وقت ملاقات نہیں ہو سکی۔

شادی کی دعوت
ولی رحما نی کہتے ہیں کہ ۔۔۔مئی 2025 میں خان سر نے خود مجھے فون کیا اور اپنی شادی کی دعوت دی۔ اسی کال کے دوران میں نے انہیں صاف بتایا کہ میں ان کے خلاف عوامی طور پر بول چکا ہوں اور مجھ سے ملنا مشکل اور غیر آرام دہ ہو سکتا ہے۔ میں اس شادی میں شریک نہیں ہوا۔کچھ مہینوں بعد نومبر 2025 میں ان کے چھوٹے بھائی کی شادی کے موقع پر انہوں نے دوبارہ فون کیا اور شرکت کی درخواست کی۔ ایک بار پھر انہوں نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے ان سے سیدھا سوال کیا کہ وہ ایسے شخص سے کیوں ملنا چاہتے ہیں جس نے ان پر عوامی تنقید کی ہو۔
کیا تھا خان سر کا جواب ۔۔۔۔۔
ولی رحمانی کہتے ہیں کہ میرے سیدھے سوال کا خان سر نے یہ جواب دیا کہ ۔۔۔۔ وہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ میں مسلم کمیونٹی کے لیے کیا کرنا چاہتا ہوں۔انہیں میرے اسکول کا تعلیمی ماڈل پسند ہے اور اسے قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ولی رحمانی کے مطابق سب سے اہم بات یہ کہ خان سر نے کہا کہ اختلافات کے باوجود کیا ہم تعلیم جیسے مشترکہ میدان پر بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے اور یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کمیونٹی کے لیے مل کر کیا کیا جا سکتا ہے۔
پھر دعوت اور دورہ
تعلیمی حلقے یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ دونوں چہرے کبھی ایک فریم میں نظر نہیں آئیں گے۔ لیکن ولی رحمانی کے بیان کے مطابق۔۔۔۔ دسمبر 2025 میں ان کے پرسنل اسسٹنٹ نے مجھے اطلاع دی کہ خان سر سرکاری کام سے کولکتہ آ رہے ہیں۔ وہ مجھ سے ملاقات کے ساتھ ہی اسکول دیکھنا چاہتے ہیں۔ اتفاق سے چند دن بعد ہمارے اسکول کا سالانہ پروگرام تھا۔ میں نے انہیں اسکول کے سالانہ دن کی دعوت دی ۔انہوں نے دعوت قبول کر لی۔
اپنے بیان میں ولی رحمانی کہتے ہیں کہ وہ سالانہ دن سے ایک دن پہلے پہنچے۔ انہوں نے گھنٹوں اسکول کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس کے بعد ہم میرے آفس میں بیٹھے جہاں تقریباً دو گھنٹے بند کمرے میں گفتگو ہوئی۔ یہ رسمی بات چیت نہیں تھی۔ یہ گفتگو سنجیدہ تھی۔ کچھ لمحات میں یہ غیر آرام دہ بھی تھی۔ خیالات میں حقیقی ٹکراؤ تھا۔ ولی رحمانی کے مطابق میں نے یہاں تک تجویز دی کہ ہم ایک پوڈکاسٹ کریں اور اپنے اختلافات کھلے عام زیر بحث لائیں۔ انہوں نے انکار کیا اور ایک اہم بات کہی کہ اکیلے میں بات کرنا آن ایئر جانے سے بہتر ہے۔
ملاقات ۔ دوستی نہیں
اب یہ تمام باتیں شئیر کرنے کے بعد ولی رحمانی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں۔یہ پہلی ملاقات دوستی کا سبب نہیں بنی۔یہ شناسائی مکالمے اور تبدیلی کے امکان کا سبب بنی۔الحمدللہ اس نجی گفتگو نے کچھ نہ کچھ ضرور بدلا۔ چاہے وہ تبدیلی تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن وہ حق کی طرف تھی۔
خان سر کے بارے میں رائے
اس ملاقات اور اس پر حیرت کا ذکر کرتے ہوئے ولی رحمانی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں ایک بات کا اعتراف نہ کروں تو ناانصافی ہوگی ۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ خان سر واقعی غریبوں اور محروم لوگوں کے لیے دل رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے لیے اسپتال قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نیت قابل قدر ہے۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ دل سے استاد ہیں۔
کیا خان سر پر ولی رحمانی کا اثر ہوا
دلچسپ بات یہ ہے کہ ولی رحمانی کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے اگلے ہی دن مجھے خٓان سر کے مزاج میں اس تبدیلی کی جھلک نظر آئی ۔ مسلم کمیونٹی کے بارے میں احترام سے بات کی۔ یہ محض دکھاوا نہیں تھا۔ یہ اثر تھا۔
مگر ولی رحمانی کہتے ہیں کہ ۔۔۔اگر خان سر کبھی دوبارہ ماضی کے انداز کی طرف لوٹے تو میں سب سے پہلے ان کی دوبارہ عوامی اور بے لاگ مخالفت کروں گا۔میں دعا کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو۔ کیونکہ ان جیسی رسائی اور اثر رکھنے والا شخص اگر درست رہنمائی میں ہو تو کمیونٹی اور قوم دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
ولی رحمانی نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ ان کی روانگی سے پہلے میں نے انہیں تین کتابیں تحفے میں دیں۔
1 Ar Raheeq Al Makhtoomاز شیخ صفی الرحمن مبارکپوری
2 Absent in Politicsاز عبد الرحمن ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر
3 Designing Deprivation Muslims of Indiaاز عبد الرحمن ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر
میں نے انہیں بتایا کہ میں نے یہ کتابیں کیوں منتخب کیں اور ان کے بنیادی خیالات پر ان سے بات بھی کی۔
ولی رحمانی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
آپ مجھے ٹرول کر سکتے ہیں۔
آپ مجھے غلط سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن میں اس بات پر معافی نہیں مانگوں گا کہ میں نے تکبر کے بجائے مکالمہ چنا اور فاصلے کے بجائے دعوت کو ترجیح دی۔اگر دلوں کا کوئی دروازہ کھلتا ہے تو میں اس میں داخل ہوں گا چاہے وہ راستہ کتنا ہی غیر آرام دہ کیوں نہ ہو۔ یہی میرا مؤقف ہے۔
ولی رحمانی کے اس پیغام یا بیان کے بعد اب ملک کے تعلیمی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ مستقبل میں یہ دونوں تعلیمی دیو ایک ساتھ نظر آئیں گے؟ کیا ان کے درمیان نظریاتی اختلاف کی کھائی بھر جائے گی یا پھر اپنے اپنے وجود کی فکر میں وہ الگ الگ راہوں پر ہی اپنے مشن میں جٹے رہیں گے ۔ بہرحال ولی رحمانی کا یہ کہنا کہ پہلی ملاقات کو دوستی کا آغاز نہیں کہا جاسکتا اس بات کا اشارہ ہے سوچ اور نظریئے پر بات تو ہوئی ہوگی لیکن ایک دوسرے کو مطمین کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا بس اتنا ضرور ہے کہ ندی کے دو کناروں کے ملنے کے بجائے ان کے درمیان پل بن جانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے