سوشل میڈیا کے سہارے ضرورت مند مسلمانوں کے مسیحا بنے ویوم امین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-04-2021
ویوم   اتحاد ریلی میں مسلم طلباء کے ساتھ
ویوم اتحاد ریلی میں مسلم طلباء کے ساتھ

 

 

 شاہد حبیب /احمدآباد

ایک ایسے وقت میں جب فیس بک ، واٹس ایپ ، انسٹاگرام اور ٹویٹر پر فرقہ وارانہ زہر اگل رہی ہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک ہندو گڈ سماریٹن کی فلاحی کاوشیں نفرت کا کاروبار کرنے والوں کے چہروں پر زوردار طمانچہ ہے۔

گاندھی نگر میں مقیم 29 سالہ سائبرنوٹ ویم امین ریستوران بھی چلاتے ہیں۔ ان کا دل غریبوں اور مساکین کے لئے تڑپتا ہے ، خواہ وہ کسی بھی ذات یا برادری کے کیوں نہ ہوں۔ پچھلے چھ سالوں سے فلاحی کاموں کو کرنے والے ویوم گذشتہ ہفتے نوعمر مسلم بچیوں کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوئے جن کے والد عمر قریشی لاک ڈاؤن کے دوران اپنے ڈرائیور کی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور دو وقت کی روٹی کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔

قریشی کی مصیبتوں اور ان کی تین بیٹیوں کی فیس ادا نہ کر پانے کی خبر پاکر ویوم نے حسب معمول مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ اپنے فیاض دوستوں سے مدد کی اپیل کی ۔ کچھ ہی گھنٹوں میں 14000 روپے اکٹھا کر کے قریشی کے حوالے کردیا گیا۔

ویوم ایک ریل اسٹیٹ سرمایہ کار بھی ہیں اور ان کے والد گجرات حکومت میں کلاس  کے افسر ہیں - ویوم کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ مسکان شیخ نے بارہویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کی ہے ، لیکن ان کے مفلوک الحال والدین گاندھی نگر میں اسٹینگرافی کوچنگ کی کلاس میں شامل ہونے کا اس کا خواب پورا نہیں کرسکتے ہیں ، وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہوا اور صرف ایک دن کے اندر ہی اس کے دوستوں اور دوسرے مخلص اجنبیوں نے مسکان کے شارٹ ہینڈ کورس کی فیس کے طور پر 20،000 روپیہ دئے ۔

 اس کے علاوہ کچھ دن پہلے ہی ویوم وڈوڈرا کے رکشہ ڈرائیور یعقوب ملتانی کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کی ، جس کا 12 سالہ بیٹا فردین خون کے شدید عارضے میں مبتلا تھا اور اسے علاج کے لئے احمد آباد لے جانا تھا ۔ لاک ڈاؤن کے دوران دونوں شہروں کے درمیان نقل مکانی کرنے میں ملتانی کی بے بسی کے بارے میں بتایا گیا تو ویوم نے سوشل میڈیا کا ایک بار پھر سہارا لیا اور دو گھنٹوں میں ہی ملتانی کے بینک اکاؤنٹ میں 10،000 روپے جمع ہوگئے۔

بلڈ ڈس آرڈر کے مریض فردین اس کی مدد کرنے پر ویوم کو گلے لگا رہے ہیں

 اس سے بھی پہلے جب فردین کو فوری طور پر خون کی ضرورت تھی ویوم اور اس کے دوستوں نے وڈودرا میں پانچ دن تک کیمپ لگائے اور خود بھی خون کا عطیہ کیا اور اس کی جان بچانے کے لئے خون کی 85 بوتلیں جمع کیں۔

جب اس کے مسلم دوست ریاض خان نے حال ہی میں اسے بتایا کہ 48 سالہ یاسین خان کھوکھر کو شمالی مہسانا ضلع کے رادن پور میں چوروں نے لوٹ لیا تھا ، اور اس پر قاتلانہ حملے کے بعد وہ اسپتال میں دم توڑ رہا ہے ، ویوم اور اس کے دوستوں نے جلدی سے 14،000 روپے جمع کیے اور متاثرہ کے میڈیکل بل ادا کیے۔

پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کے ساتھ انجینئرنگ کی ڈگری رکھنے والے نرم گو اور بے لوث ویوم کہتے ہیں کہ وہ بحیثیت انسان صرف اپنا فرض نبھا رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس عظیم مقصد کے لئے آگے آنا چاہئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے کے بجاے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہئے۔ ویوم اب ہندو اور مسلم طلباء کے ساتھ فرقه وارانہ اتحاد کی ریلیوں کی قیادت کررہے ہیں ، اب غربت زدہ معاشرے کے مزدوروں کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے راضی کررہے ہیں۔

 ویوم ان لوگوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے جو ان کے مسلمانوں کی حمایت کرنے پر ان کی تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی حقیقی حقدار کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں فوری طور پر یہ جانے بغیر ہی مدد فراہم کرنی چاہئے کہ ضرورت مند شخص ہندو ہے یا مسلمان ، دلت یا عیسائی ۔