مدرسہ کے بچے فوج میں، ایک نئی مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
مدرسوں سے فوج تک کا سفر
مدرسوں سے فوج تک کا سفر

 

کچھ طلباء فوج میں مولوی ہیں، جبکہ کچھ کمیشن حاصل کرتے ہیں*

دنیاوی تعلیم مدرسے سے حاصل کریں*

یونس علوی/ میوات

سننے میں اگرچہ یہ تھوڑا سا عجیب و غریب لگے، لیکن یہ واقعہ صد فیصد درست اور سچ ہے کہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچے معمولی سی محنت اور کوشش سیوہ اعلیٰ اورعمدہ  فوجی عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔ ہریانہ کے میو قبیلہ سے تعلق رکھنے والے  مسلمانوں کی اکثریت والے ضلع نوح کے ایسے چار نوجوانوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، جو یقیناً دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبا کو نصاب کی تکمیل کے بعد اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے جدید عصری علوم کی طرف مائل کرنے میں مہمیز کا کام کریں گے۔

اطلاعات کے مطابق دینی مدارس کے تعلیم یافتہ مذکورہ طلبا نے مدرسہ سے فراغت کی سند حاصل کی بعد ازاں انہوں نے جدید عصری علوم کے حصول کے لیے خود کو قدرے اپڈیٹ کیا، نتیجہ کار آج وہ سبھی چاروں طلبا فوج میں اچھی پوزیشنوں پرتعینات  ہیںاور ہر ح اپنا مستقبل سنوار نے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا تاریخی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

ان کی مثال کامیابی پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے نوح کے ایم ایل اے آفتاب احمد کہتے ہیں کہ ”اگر مدرسوں میں معمولی سی سہولیات بڑھادی جائیں، مطلب  ان  مدرسوں میں دینی تعلیم کے ابتدائی عصری تعلیم کا نظم کردیا جائے تو یہاں سے فارغ ہونے والے بچے بھی ملک و قوم کا نام اچھے ڈھنگ سے روشن کرسکتے ہیں“۔ انہوں نے بطور دلیل میزائل مین سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبد الکلام کی کامیابیوں کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی مدرسے میں ہی ہوئی تھی۔ ان کے والدبزرگواررامیشورم کی مسجد کے امام تھے۔

 بہر حال مدرسے کے مذکورہ چاروں طلبا کی کامیابی کی داستان کچھ مختلف اور دوسروں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔  واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہندوستانی فوج نے ستمبر 2019 میں فوج کے مختلف شعبوں میں مذہبی رہنماؤں (دھرم گرووں) کے لیے خالی پڑی اسامی کو بھرنے کی غرض سے مولویوں، پنڈتوں، پادریوں اور گرنتھیوں کی ویکنسی نکالی تھی۔  ان میں مولویوں کی چھ پوسٹیں بھی شامل تھیں۔ اس کے لئے تمام ضابطہ کار کو مکمل کرنے کے بعد حال ہی میں انہیں فوج میں شامل کیا گیا ہے۔

 فوجی بیڑے میں شامل ہونے والے کل چھ مسلم امیدواروں میں سے چار میو مسلم قبیلہ سے آتے ہیں اورہریانہ کے  پسماندہ ترین مسلم اکثریت والے نوح ضلع  سے آتے ہیں، یہ سبھی امیدوار دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مدرسہ سے دینی تعلیم پوری کر لینے کے بعد انہیں صحیح گائڈنس اور رہنمائی حاصل ہوئی اور اسی کا نتیجہ ہے یہ سبھی آج ہندوستانی فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ فوج میں مذہبی رہنماؤں (دھرم گرووں) کی حیثیت صوبیدار کے منصب کے برابر ہوتی  ہے۔ 

 اس کے لئے، دینی علوم میں مہارت کے ساتھ عصری دانش گاہوں سے گریجویٹ ہونا لازمی ہے۔  مگردینی مدارس سے سند فراغت حاصل کرنے والے بیشتر طلبا کے لیے غربت و افلاس کی وجہ سے عصری تعلیم گاہوں کا رخ کرنا آسان کام نہیں ہوتا، نہ ان کے پاس کفالت کا کوئی انتظام ہوتا ہے اور نہ ان کے اندرکالج کی بھاری بھرکم فیس اداکرنے کی استطاعت ہی پائی جاتی ہے۔ اسی معاشی  بدحالی کی وجہ سے اکثربچے جو مدرسوں  سے ہوکر نکلتے ہیں وہ مزید اعلیٰ عصری تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنی تنگ دستی اور اقتصادی بے مائگی کو دور کرنے کے لیے مساجد میں امام یا موذن بن کراپنا دین اور دنیا بہتر کر نے میں مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں۔  البتہ یہ قابل غور امر ہے کہ اگران ذی استعداد اور محنتی طلبا کو

 معمولی مالی مدد فراہم ہوجائے یعنی ملت کے بہی خواہان مخلصانہ  طور پر انہیں آگے بڑھنے کے لیے کوئی پختہ اور مستحکم انتظام کردیں تو  پھرانہیں آگے بڑھنے کے امکانات کبھی کم نہیں ہوں گے، بلکہ   یہ باصلاحیت نوجوان ذی حیثیت اور سرمایہ دار گھروں کے چشم و چراغ سے بھی زیادہ بہتر کرکے ملت کا سر فخرسے اونچا کرنے کا سامان فراہم کر سکتے ہیں۔

پانچوں بچوں کے والد کے اپنے بیٹے کو اعلیٰ عصری تعلیم دلانا نہایت مشکل کام تھا

فوج میں مولوی کے عہدے پر فائز ہونے والے نوح کے ڈھکل پور گاوں کے محمد طلحہ کے مطابق  زمانہ طفولیت میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کی وجہ سے وہ عصری تعلیم کے لیے اسکولوں کا رخ نہیں کر سکتے تھے، لہذا اس نے  1998 میں قرآن شریف  حفظ کر لیا۔ پھر سال 2006 میں  اس نے دہلی کے کشمیری گیٹ میں واقع مدرسہ امینیہ سے مولویت کی تعلیم پوری کی۔ بعد ازاں تین سال تک ایک مسجد میں امام رہے۔ دریں اثنا اس نے نیشنل اوپن اسکول(NOS)  سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔  2015 میں انہوں نے مولانا آزاد یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اسی دوران اس نے ایک سالہ کمپیوٹر کورس بھی کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے 2017 میں ایم اے کیا اور 2020 میں مولانا آزاد یونیورسٹی سے بی ایڈ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ محمد طلحہ کہتے ہیں، ''ان کے پانچ بچے ہیں۔ ایسے میں گھر کا خرچ چلانا اور اعلی تعلیم حاصل کرنا اس کے لیے مشکل مسئلہ تھا۔لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں توڑا اور تمام مسائل کے باوجود عصری تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیے“۔

دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم ضرور حاصل کریں

نوح کے گاؤں دیوالہ کے محمد ماجد، علی حسن اور نگینہ کے رانیکا گاؤں کے عبد المجید حوض رانی نے بھی فوج میں جونیئر کمیشنڈ آفیسر (جے سی او) کا امتحان پاس کیا ہے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ فوج میں جانیکی تیاریوں میں لگ گئے تھے۔ انہوں نے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا سے دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کی گزارش کی ہے، تاکہ ان کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب 10–12 سال کی عمر کا مسلمان بچہ قرآن پاک حفظ کرسکتا ہے تو اس کے لیے عصری تعلیم حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، بشر طیکہ انہیں مادی وسائل فراہم ہوجائیں۔