رانچی : جھارکھنڈ کے دیہی علاقوں سے کچھ ایسی کہانیاں نکل کر سامنے آئی ہیں جنہوں نے صرف سرکاری نوکری کا خواب نہیں دیکھا بلکہ اپنی بے سروسامانی، غربت، جسمانی معذوری اور سماجی دباؤ کو شکست دے کر اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ جے پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے یہ نوجوان، صرف افسر نہیں بنے، بلکہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں حقیقی ہیرو ثابت ہوئے۔
سورج یادو: ڈیلیوری بوائے سے ڈپٹی کلکٹر تک
گرڈیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے سورج یادو کی زندگی بھی جدوجہد کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کے والد ایک مستری ہیں اور مالی حالات ہمیشہ کمزور رہے۔ سورج نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے رانچی میں Swiggy ڈیلیوری بوائے اور Rapido رائیڈر کا کام شروع کیا۔مسئلہ یہ تھا کہ موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ تب ان کے دوستوں راجیش اور سندیپ نے اپنے اسکالرشپ کے پیسے دے کر ان کی مدد کی۔ سورج دن میں پانچ گھنٹے ڈیلیوری کا کام کرتے اور باقی وقت پڑھائی میں گزارتے۔ ان کی بیوی اور بہن نے بھی اس جدوجہد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔انٹرویو کے دوران جب سورج نے بتایا کہ وہ ڈیلیوری بوائے ہیں، تو بورڈ نے شک کی نظر سے دیکھا۔ لیکن جب انہوں نے پورے ڈیلیوری سسٹم کی تکنیکی معلومات درست طریقے سے بیان کیں، تو بورڈ کے ارکان حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ ان کا سچ تھا، جس نے ان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔
یہ تینوں کہانیاں صرف کامیابی کی نہیں، بلکہ استقامت، قربانی، اور ہمت کی ہیں۔ جب ببیتا کی ماں چینی سے منہ میٹھا کر رہی تھیں، وشنو نئی صبح کا آغاز کر رہے تھے، اور سورج اپنی محنت کا پھل حاصل کر رہے تھے ، تو وہ صرف خود کو نہیں بلکہ پورے جھارکھنڈ کے خوابوں کو روشن کر رہے تھے۔یہ صرف جے پی ایس سی پاس کرنے والوں کی کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ ان سب کی امید ہیں جو زندگی کی تلخیوں میں بھی خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
ببیتا پہاڑیا: پہاڑوں کی بیٹی، خوابوں کی فاتح
ڈمکا ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ببیتا پہاڑیا کا تعلق اس قبیلے سے ہے جسے ہندوستان کے سب سے پسماندہ قبائل میں شمار کیا جاتا ہے۔ پہاڑیا قبیلے کی زندگی آج بھی فطرت کے قریب، جنگل پر منحصر اور جدید دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ایسے میں جب ببیتا نے افسر بننے کا خواب دیکھا، تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ببیتا کے والد ایک نجی اسکول میں ہیلپر ہیں، ماں گھریلو خاتون ہیں، اور بھائی پوسٹ آفس میں کام کرتا ہے۔ ایسے محدود وسائل میں جے پی ایس سی جیسے امتحان کی تیاری کرنا کسی پہاڑ سر کرنے سے کم نہیں تھا۔ ببیتا پر جب شادی کے لیے دباؤ پڑا، تو اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا: "جب تک سرکاری نوکری نہ ملے، شادی نہیں کروں گی۔"جب 25 جولائی کو نتائج آئے اور ببیتا نے 337واں رینک حاصل کیا، تو گھر میں جشن کے لیے مٹھائی کے پیسے بھی نہ تھے۔ ایسے میں ببیتا کی ماں نے چینی سے لوگوں کا منہ میٹھا کیا۔ یہ وہ میٹھا لمحہ تھا، جو برسوں کی تلخیوں پر غالب آ گیا۔
وشنو منڈا: معذوری کو ہرا کر بنے مثال
رانچی کے تمر بلاک سے تعلق رکھنے والے وشنو منڈا پیدائشی معذور ہیں۔ ماں کے پیٹ میں ایک دوا کے اثر سے ان کے جسم کا ایک حصہ مکمل نشوونما نہیں پا سکا، لیکن ان کے حوصلے میں کبھی کوئی کمی نہ آئی۔ گھر کی غربت ایسی تھی کہ والد جمشیدپور میں دن کو مزدوری اور رات کو چوکیداری کرتے تھے۔وشنو نے نو سال تک جے پی ایس سی امتحان کی تیاری کی۔ کئی بار ناکامی کا سامنا کیا، لیکن ہار نہیں مانی۔ دن میں ٹیوشن پڑھاتے، رات کو قبائلی ہاسٹل میں رہ کر پڑھائی کرتے۔ جب کامیابی ملی، تو صبح چار بجے ان کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں سکون تھا۔ وشنو نے نہ صرف امتحان پاس کیا، بلکہ ہزاروں نوجوانوں کو یہ سبق دیا کہ جسم کی کمزوری کبھی بھی خوابوں کی پرواز کو نہیں روک سکتی۔