ڈاکٹرروشن:معذوری جس کی زندگی کو تاریک نہ کرسکی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 18-09-2021
ڈاکٹرروشن جواد: جسے حادثے نے ہرو بنا دیا
ڈاکٹرروشن جواد: جسے حادثے نے ہرو بنا دیا

 


آواز دی وائس، ممبئی

ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی کے جوگیشوری کی رہنے والی خاتون روشن  اب ڈاکٹر روشن جواد بن چکی ہیں۔ ڈاکٹر بننے کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے،انھوں نے کس طرح اپنی کمزوری کو مات دی،اس کی داستان سبق آمواز ہے۔  

ٹرین حادثہ

تیرہ برس پہلے ممبئی کے جوگیشوری کی رہنے والی روشن جواد نے ٹرین حادثے میں اپنی دونوں ٹانگیں کھو دیں۔ اس دن انھوں نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی گویا ختم ہوگئی ہے۔ روشن کو لگا کہ اس کے بچپن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوپائے گا۔ وہ کبھی ڈاکٹر نہیں بن پائیں گی۔ تاہم روشن نے ہمت نہیں ہاری۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تمام مشکلات کے باوجود نے نہ صرف انھوں نے طب کی تعلیم مکمل کی بلکہ اس سلسلے میں درپیش قانونی جنگ بھی انہیں لڑنی پڑی۔

یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ روشن کو ہڈیوں کا ٹیومر بھی ہے، لیکن ان کی کوئی بھی کمزوری ان کے خوابوں کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر روشن جواد اس وقت عمر29 برس کی ہیں، وہ کہتی ایم ڈی پاس کرنے پرمیں بہت خوش ہوں۔ میرے لیے یہ کرنا بہت مشکل تھا، لیکن میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔

کب ہوا حادثہ 

 اکتوبر2008 میں، روشن اپنے اسکول(انجمن اسلام گرلز کالج،باندرا) میں امتحانات دینے کے لیے گئی ہوئی تھیں۔امتحان کے بعدوہ اپنے اسکول کی ایک دوست کے ساتھ ٹرین کے ذریعے اندھیری سے جوگیشوری واپس آرہی تھی۔ روشن کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پٹریوں پر گر گئیں۔ اس کے دونوں پاؤں چلتی ٹرین کے نیچے دب کر کٹ گئے۔

سبزی فروش والد

تمام منفی حالات کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور دسویں جماعت میں 92.2 فیصد نمبر حاصل کیے۔ سبزی فروش کی بیٹی کا ڈاکٹر بننے کا سفر آسان نہیں تھا۔ اینٹرنس ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد بھی انھیں ایم بی بی ایس(MBBS) میں داخلے کے لیے بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔

معذوروں کے لیے داخلے کا معیار

 ڈاکٹرروشن جواد کہتی ہیں کہ اصول یہ تھا کہ صرف 70 فیصد تک معذور افراد طب کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ حادثے کے بعد 86 فیصد تک معذور ہو گئیں تھیں۔ اس لیے انہیں کورٹ سے اجازت لینی پڑی، اس سلسلے میں انھیں مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

 ہائی کورٹ کے حکم پر ایم بی بی ایس میں داخلہ

ایک لمبی لڑائی کے بعد بالآخر روشن کو فتح ملی۔ بمبئی ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس موہت شاہ نے روشن کو میڈیکل میں داخلہ لینے کی اجازت دی۔

awazurdu

روشن نے 2016 میں سیٹھ جی ایس میڈیکل کالج (کے ای ایم اسپتال) سے فرسٹ کلاس کے ساتھ ایم بی بی ایس پاس کیا۔ انھوں نے سن 2018 میں پی جی میڈیکل داخلہ امتحان میں کامیابی حاصل کی اور اسی کالج میں ایم ڈی (پیتھالوجی) کے لیے داخلہ لیا۔

ایم ڈی میں داخلے میں رکاوٹیں

روشن نے کہا کہ ایم ڈی میں بھی شامل ہونے سے پہلے مجھے 86 فیصد معذوری کے اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ فارم آن لائن پرکرنے تھے اورصرف دو دن بچے ہوئے تھے۔ اس وقت کے رکن پارلیمنٹ کریت سومیا نے مرکزی وزیر صحت سے میری دستاویزات کے ساتھ ملاقات کی۔ مجھے معلوم ہوا کہ قاعدہ بدل گیا ہے۔ میں نے درخواست دی اور مجھے داخلہ مل گیا۔

  ہڈی کا ٹیومر

ایک طرف جہاں ڈاکٹر روشن جواد نے ٹرین حادثے میں اپنے دونوں پیر کھو دیے تھے، وہیں انھیں ہڈی کا ٹیومر بھی ہے۔ ایم ڈی کی تعلیم کے دوران ہڈیوں کے ٹیومر کی تشخیص ہوئی۔

وہ کہتی ہیں کہ میرا آپریشن ہوا اور اس دوران ہمارے ایچ او ڈی ، ڈاکٹر امیتا جوشی ، میرے بیچ میٹ ، اساتذہ اور دوستوں نے میری بہت مدد کی۔

گذشتہ 15 ستمبر 2021 کو ایم ڈی کے امتحانات کے نتائج اعلان ہوا۔ انھوں نے کے ای ایم پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں 65 فیصد نمبر حاصل کیے اور چوتھے نمبر پر رہیں۔

روشن کو کون لوگ یاد آتے ہیں

روشن ان لوگوں کوہمیشہ یاد کرتی ہیں، جنھوں نے ان مدد کی۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے تیسرے نمبر پر ہیں اور جوگیشوری میں 10x10 سائز کے کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے والد جواد شیخ ریٹائرڈ ہیں، اب وہ کام نہیں کرپاتے ہیں اور ان کے بھائی ابوطالب سیلزمین ہے۔ ابوطالب خاندان کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔

ڈاکٹر روشن جواد یوں تو ان تمام لوگوں کو یاد کرتی ہیں جنھوں نے کسی بھی اعتبار سے ان کی مدد کی تاہم وہ خود کو تین لوگوں کی احسان مند مانتی ہیں۔

awazurdu

(1)آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر سنجے کنتھریا جنھوں نے ان کی ہمیشہ ایک بیٹی کی طرح مدد کی اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔(2) سینئرایڈوکیٹ وی پی پاٹل نے جنھوں نے ان کا مقدمہ مفت میں لڑا۔(3)رکن اسمبلی  امین پٹیل جنھوں نے ان کی طبی تعلیم کا خرچ پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

 خواب ابھی باقی ہیں

ڈاکٹرروشن جواد کہتی ہیں کہ ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کرنے کے بعد اب اس کے پاس دوسال کی بانڈ سروس ہے اور وہ اسے پہلے مکمل کرے گی۔ اس کے بعد  اگر کسی سرکاری اسپتال میں خالی جگہ ہوئی تووہاں درخواست دے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں دیہی علاقوں میں ایک لیب اور ڈائگونوسٹک سنڑ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں تاکہ لوگوں کو ٹیسٹ کے لیے زیادہ سفر نہ کرنا پڑے۔ اگر مجھے مالی مدد ملتی ہے تو میں اسے شروع کرپاوں گی یا اس وقت تک کا انتظار کروں گی جب تک میں مالی طور پر لیب کھولنے کے قابل نہیں ہو جاتی ہوں۔ میرے سینٹرمیں سبسڈی والے ٹیسٹ اور غریبوں کے لیے مفت ٹیسٹ دستیاب ہوں گے۔