شاہنواز اور عماد کی پہل: فن خطاطی سے کشمیری قالین کی صنعت کو نئی زندگی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-11-2021
شاہنواز اور عماد کی پہل:  فن خطاطی بنا کشمیری قالین   کی صنعت کے لیے حیات بخش
شاہنواز اور عماد کی پہل: فن خطاطی بنا کشمیری قالین کی صنعت کے لیے حیات بخش

 

 
رضوان شفیع وانی، سری نگر

کشمیر کی دستکاریوں میں کئی فنون شامل ہیں لیکن قالین بافی ایک اہم صنعت کے طور پر تصور کی جاتی ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس صنعت سے کاروبار اور دستکار سنبھل نہیں پا رہے ہیں۔ ایسے میں چند قابل اور ہونہار نوجوان سامنے آئے ہیں جو اس صنعت کو بحرانی صورتحال سے باہر نکالنے اور اسے ایک نئی جلا بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان قالین بافی کی احیا کی خاطر کیلیگرافی اور دیگر ڈائزائن متعارف کرا رہے ہیں۔ شاہنواز احمد اور عماد پرویز جیسے نوجوانوں نے پہلی بار قالین میں کیلیگرافی اور دیگر دلکش ڈائزنز متعارف کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں قالین بافی کا وجود ختم ہونے جا رہا ہے اور ایسے میں اس طرح کی پہل سے یہ صنعت نہ صرف پھر سے زندہ ہو گی بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کا وقار بھی بحال ہو سکتا ہے۔ شاہنواز کا تعلق سری نگر کے ڈاون ٹاؤن علاقے سے ہے۔

کشمیر یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قالین پر خطاطی اور نئے ڈیزائنوں کا تجربہ کرنا شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں فائن آرٹس میں گریجویٹ ہوں اور میری پوری فیملی اس فن سے وابستہ ہے۔ 'میں نے روایتی ڈیزائنز سے کچھ مختلف کرنے کا سوچا۔

میں نے قالین پر خطاطی اور الگ الگ ڈیزائنز بنانے شروع کیے اور میں اس میں کامیاب رہا۔ خلیج ممالک کے صارفین اسے کافی پسند کر رہے ہیں‏۔ میں نے رجحان تبدیل کیا جس سے کافی فائدہ ہوا۔

'کاریگروں کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور میں نے ان کے لیے ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا۔ بُنکروں کو نئی ٹیکنیکس سیکھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ کاریگروں کو خطاطی سکھائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیزائن بنانے کے لیے سونے اور چاندی کے دھاگوں کا استعمال کرنے کا کام بھی سکھایا ہے۔'

awazurdu

شاہنواز کا کہنا ہے کہ کشمیر کی دستکاری صنعت پوری دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے اور قالین بافی کو کشمیری دستكاری میں تاج کا مقام حاصل ہے۔ لیکن حکومت کی عدم توجہی اور نئی نسل کی عدم دلچسپی کے باعث یہ صنعت دم توڑ رہی ہے۔

'آج کل یہ صنعت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اب ہم نے قالین پر کیلیگرافی اور دیگر الگ الگ ڈیزائنز متعارف کیے ہیں۔ اسے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر کافی پسند کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قالینوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ مجھے بہت سارے آرڈر مل رہے ہیں۔ اگر ہم کچھ مختلف کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ یہ صنعت مزید ترقی کرے گی۔

'کیلیگرافی میں دلچپسی رکھنے والے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو اس پہل سے کافی فائدہ ہوگا۔ وہ اس فن میں اپنا ہاتھ آزمانے کے لیے بھی راغب ہو سکتے ہیں۔' سری نگر کے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے عماد پرویز بھی اس کاروبار سے جڑے ہیں۔ اس صنعت کو زندہ رکھنے کی چاہ نے انہیں اس کام کی طرف کھینچا۔

عماد کشمیری قالین کو ایک نئے انداز میں انٹرنیشنل مارکیٹ میں متعارف کرانے کی کوشش میں ہیں۔ عماد نے اٹلی میں لگژری برانڈ مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ کی نہج کو دیکھتے ہوئے عماد کہتے ہیں کہ نئے ڈیزائنز متعارف کرنے سے ہی کشمیری قالین کی مانگ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وہ کشمیر کرافٹ کے ساتھ ایک لگژری برانڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی دستکاری صنعت میں تاج کا مقام حاصل ہونے والی قالین بافی صنعت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ 'اس صنعت سے جڑے افراد کو ڈر ہے کہ کشمیر اپنی ایک شاندار شناخت سے محروم ہوجائے گا۔ ہم اس فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی بحالی کے لیے ہم نے یہ پہل کی ہے۔

awazurdu

اسے ان لوگوں میں متعارف کرایا جائے جو اس فن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کیلیگرافی اور الگ الگ ڈیزائن متعارف کرنے سے نوجوان نسل بھی اس صنعت کی طرف راغب ہو گی۔' عماد پرویز کا کہنا ہے کہ خطاطی کا کام سے قالین کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

ہماری اس نئی پہل کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت اور حوصلہ افزا قرار دیا جا رہا ہے۔ 'میں شاہنواز سے ملا وہ نہ صرف ایک لاجواب کاریگر ہیں بلکہ ان کا ایک وژن تھا کہ وہ ایک ایسا پروڈیکٹ تیار کریں جسے لگژری پروڈیکٹ کہا جا سکے۔

awazurdu

 

میں نے ان کے ساتھ تعاون کیا اور ہم ایک برانڈ بنا رہے ہیں۔ 'ہم تمام کشمیری دستکاری کو ایک نئے انداز میں تیار کر کے مارکیٹ میں معتارف کرنا چا رہے ہیں۔ قالین پر یہ نئی تکنیک اور ڈیزائن اس فن میں نئی جان ڈال رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف اس ہنر کو بحال کرنے میں مدد مل رہی ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔'