سعدیہ شیخ:ممبئی سے’دیورا’جاکرکتابوں کی دنیا بسا دی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-09-2021
 سعدیہ شیخ :کتب خانہ کا کوئی بدل نہیں
سعدیہ شیخ :کتب خانہ کا کوئی بدل نہیں

 

 

آواز دی وائس: ملک کے مختلف شہروں میں بڑی چھوٹی لائبریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ حالانکہ اب دور ایسا بدلا ہے کہ لوگ کتابیں پڑھنا بھول گئے اور گیجیٹس کےغلام بن گئے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں پرانی لائبریاں اب بھی برقرار ہیں۔ ان کے بقا کا سوال ضرور پریشان کرتا ہے کیونکہ اس دور میں کسی لائبریری کو منظم رکھنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ۔

اس ماحول میں اگر کوئی نئی لائبریری قائم کرے اوربچوں میں کتابوں کا شوق زندہ کرنے کی پہل کرے تو یقینا بہت بڑی بات ہے۔ ساتھ ہی اگر یہ کوشش کوئی ادارہ یا بڑی شخصیت کے بجائے کوئی طالبہ کرے تو اور بھی حیران کن بات ہوگی۔

ایسا ہی ایک اہم نام ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی سے تعلق رکھنے والی سعدیہ شیخ کا ہے۔ فی الوقت سعدیہ شیخ رضوی کالج کی طالبہ ہیں۔سعدیہ شیخ کہتی ہیں کہ کتب خانہ کا کوئی بدل نہیں ہے، اس لیے اس کی افادیت اور اہمیت جس طرح پہلے اہم تھی، اسی طرح آج بھی اہم ہے۔اسی جذبے نے سعدیہ شیخ کو ایک کتب خانہ کے قیام پرمجبورہے۔ ان کا آبائی وطن ریاست بہار ضلع دربھنگہ میں ہے۔

دیورا گاوں

دبھنگہ ضلع کے دیورا میں انھوں نے ایک کتب خانہ قائم کیا ہے، اسی گاوں میں وہ پیدا ہوئیں تھیں۔دیورا ساڑھے تین ہزار کی آبادی پر مشتمل گاؤں ہے، جہاں خواندگی کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے۔

سعدیہ شیخ نے یہاں علم کی روشنی پھیلانے کے لیےعملی قدم اُٹھایا اور اہل خانہ، رشتہ داروں اور اپنے جاننےو الوں کے تعاون سے دیورا میں ایک کمیونٹی لائبریری قائم کی۔اس لائبریری کا مقصد گاؤں میں مطالعہ کا ماحول بنانا اور بچوں میں تعلیم کے تئیں رغبت پیدا کرنا ہے۔

مولاناآزاد کمیونٹی لائبریری 

کمیونٹی لائبریری یکم اکتوبر2020ء سے کم و بیش500 کتابوں کے ساتھ شروع ہوئی اور اب یہاں 1500سے زائد کتابوں کا ذخیرہ ہوچکا ہے۔

سعدیہ شیخ نے بتایا کہ یکم اکتوبر سے آزاد لائبریری شروع ہوئی۔ لائبریری جب قائم کی گئی تب ہمارے پاس اتنے پیسے تو نہیں تھے کہ ہم ڈھیرساری کتابیں خرید سکیں ۔ ہم نے گاؤں میں ہی لوگوں سے گزارش کی کہ وہ اپنے گھروں سے کتابیں عطیہ کریں۔ جن میں ادب ، بچوں کے لئے کہانیوں کی کتابیں اور مذہبی کتابیں ہیں جب کہ زیادہ تربہار بورڈ کی نصابی کتابیں (جماعت اول تا بارہویں) ہیں۔ 

جن کتابوں کی ہمیں کمی محسوس ہورہی تھی وہ آرڈر دے دی گئی ہیں اور پہنچ بھی گئی ہیں۔ ہماری اس کمیونٹی لائبریری میں ہم ایک ہندی اخبار(دینک بھاسکر)اور اردو میں روزنامہ انقلاب بھی منگوارہے ہیں۔ چونکہ دیورا میں ہندی یا اردو ہی چلتی ہے اس لئے ہم نے انگریزی کا کوئی اخبار نہیں منگوایا ہے۔

سعدیہ شیخ بتاتی ہیں کہ گذشتہ برس جولائی2020 کے اَواخر میں لاک ڈاؤن کے دوران گاؤں میں تھی، اسی وقت انھوں نے لائبریری کے قیام کے لیے تگ و دو شروع کر دی تھی۔

کمیونٹی لائبریری کا خیال

سعدیہ نے بتایا کہ سی اے اے، این آرسی مظاہروں کےدوران جب میں جب باہرنکلی تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیں تعلیم کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سی اے اے ،این آرسی مظاہروں کےدوران جب میں جب باہرنکلی تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیں تعلیم کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ میں کلاس نہیں کھول سکتی، اسکول نہیں کھول سکتی تاہم تعلیم کے لیے گاؤں میں اپنی جانب سے یہ ایک چھوٹا کام تو کر سکتی ہوں، ایک کمیونٹی لائبریری  تو کھول سکتی ہوں۔اس کے بعد انھوں نے لاک ڈاون اور کورونا وائرس کے ایام میں ہی، ایک ایسا کام کیا ہے، جس کی چہار جانب ستائش کی جا رہی ہے۔

سعدیہ کی تعلیم

سعدیہ شیخ دربھنگہ ضلع کے دیوراگاؤں میں پیدا ہوئیں۔ سعدیہ نے بتایا کہ ان کا ننہیا ل اور ددھیال اسی گاؤں کا ہے۔ وہ چھوٹی ہی تھیں تب ان کے والدین ممبئی منتقل ہوئے۔ ان کی دسویں تک دینی وعصری تعلیم جامعہ محمدیہ مالیگاؤں میں ہوئی۔

گاوں میں لائبری کھولنے کی وجہ

سعدیہ کا کہنا ہے کہ بہار میں گاؤں دیہاتوں میں تعلیم کی سطح پر بہت کام کی ضرورت ہے۔ یہاں کے والدین بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے تئیں اتنے سنجیدہ نہیں ہیں اس لئے اس لائبریری کا مقصد تعلیمی ماحول بنانا ہے اور ہمارا مستقبل کا عزم ہے کہ اسی نہج پر ہم آس پاس کے گاؤں دیہاتوں میں بھی کام کریں۔اسی سوچ اور جذبہ رکھنے والے افراد کو ہم اپنے ساتھ جوڑکر یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔

لائبریری کےاخراجات

سعدیہ نے اس حوالے سے کہا کہ  نئے اخبارات، رسائل منگوانے اورلائبریری کے دیگر اخراجات کے لئے ہم نے کئی این جی اوز سے رابطہ کیا ہے۔ کچھ نے تعاؤن بھی کیا ہےاور کچھ سے بات چیت کی جائے گی۔

 لائبریری بچوں کے لیے وقف

لائبریری میں بچوں کے لئے شام میں ایک کلاس بھی جاری ہے دیورا کی مولانا آزاد لائبریری میں بچے پڑھائی کرتے ہیں۔سعدیہ شیخ نے بتایا کہ شروع میں بچے نہ کہ برابر تھے، مجھے لگا کہ ہماری یہ کوشش ناکام رہی۔ لیکن دھیرے دھیرے اب بچے اور بڑے دونوں آرہے ہیں۔

awazurdu

میں نے ایک کام یہ بھی کیا کہ جو بچے اسکول نہیں جاتے تھے اور گلی کوچوں میں کھیلتے پھرتے تھے انہیں پکڑ کر لائبریری لے کر آئی۔ انہیں کاغذ اور دیگر چھوٹی موٹی چیزوں کا کرافٹ بتایا تاکہ ان کی دلچسپی بڑھے۔ اس طرح ہم نے شام کے وقت میں چھوٹے بچوں کے لئے ہم ایک کلاس بھی شروع کردی ہے۔

یہ  بنیادی کلاس ہے جہاں بچوں کو زبانوں کے حروف تہجی ،گنتی اور اس طرح کی باتیں سکھائی اور پڑھائی جارہی ہیں۔ ایسے بچے جو اسکول نہیں جاتے ہیں، یا جن کا اسکول سے کوئی واسطہ ہی نہیں پڑا انہیں ہم اس لائبریری میں لے کر آتے ہیں اور پڑھاتے ہیں۔اس وقت دس سے پندرہ بچے شام میں باقاعدگی سے آتے ہیں۔ 5 سے 7 بڑی عمر کے افرادبھی آتے ہیں۔

لائبریری کی نگرانی

سعدیہ کہتی ہیں کہ اس کی ذمہ داری ہم نے مختار صاحب (45)کوسونپی ہے وہ ہمارے ہی رشتہ دارہیں۔ وہ مدرسہ میں ایک ٹیچر ہیں۔ ان کا گھر لائبریری سے قریب ہی ہے اس لئے ہم نے انہیں لائبریری کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو کتابیں وغیرہ لگے تو دے دیں۔

شام کے وقت میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیہ کی بچوں کی کلاس کے لئے راحیلہ پروین بلامعاوضہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔راحیلہ بی ایس سی کی پڑھائی کررہی ہیں اور ہمارے اس کام میں وہ بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔

سعدیہ کا خواب

سعدیہ شیخ پروفیسر بننا چاہتی ہیں اور انگریزی ادب اور سوشیولوجی ان کے اسپیشل مضامین ہیں سعدیہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے سوشیالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی متمنی ہیں۔وہ درس و تدریس کو کریئر بنانا چاہتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ مجھے درس و تدریس کے پیشہ سے دلچسپی ہے اس لئے میں سوشیالوجی کی پروفیسر بننا چاہتی ہوں۔

اردو زبان 

جب ہم مادری زبان میں بہتر ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ہم کوئی بھی زبان آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔اردو زبان کے تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ ہماری مادری زبان اردو ہے اس لیے اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں دینی چاہئے۔ کیوں کہ میرا خیال ہے کہ جب ہم مادری زبان میں بہتر ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ہم کوئی بھی زبان آسانی سے سیکھ سکتے ہیں۔ زبان کبھی ہماری ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ نئی زبانیں سیکھنی چاہئے۔

پیغام

سعدیہ کی کوشش نوجوانوں کویہ پیغام دیتی ہے کہ اگر ہم تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں ایک چھوٹا سا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے کہ دیگرتعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی سعدیہ شیخ کی تعلیم کے لیے عملی طور پر قدم اُٹھائیں، جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو سکے۔