ریزبین ابا: سوشل میڈیا کے دور میں 'قلمی دوستی'کا جنون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-11-2021
ریزبین ابا: سوشل میڈیا کے دور میں 'قلمی دوستی'کا جنون
ریزبین ابا: سوشل میڈیا کے دور میں 'قلمی دوستی'کا جنون

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

دورِجدید نے ہمیں جہاں بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں اس زمانے نے ہمیں پوری طرح سے مشینوں کا غلام بنا دیا ہے۔ پرانی باتیں اور اقدار اب کی بورڈ اورٹچ پیڈ پرتھرکتی ہوئی انگلیوں کے درمیان دبتے چلے جا رہے ہیں۔

ایک دور ایسا بھی تھا جب لوگ خط لکھا کرتے تھے، خط کا انتظار کیا کرتے تھے،اس وقت خط گویا رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اب خط کی جگہ جدید تکنیکی ذرائع نے لے لی ہے۔ ورنہ خط کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ

خط لکھا کیجئے،یہ فطرت انسانی ہے

جالے لگ جاتے ہیں، بند مکان ہوتا ہے

تاہم آج کے دور میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں، جنہیں خط و کتابت سے دلچسپی ہے، وہ بھی قلمی دوست بنانا اور خط کے جواب خط سے دینا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور اس میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم کے اریکوڈ گاؤں ​سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ رزبین ابا بھی انہی میں سے ہے، جو ای میل،ایس ایم ایس اور واٹس اپ کے دور میں مراسلہ نگاری کو ترجیح دیتی ہیں اور قلمی دوست کو خط لکھتی ہیں۔

اگرآپ کبھی ان کے گھرتشریف لائیں توآپ کوغیرملکی چاکلیٹ، چائے اورخطوط کا بہت بڑا ذخیرہ ملے گا جو انہیں دنیا بھر کے قلمی دوستوں نے بھیجے ہیں۔

تاہم ان کے یہاں توجہ کا مرکز وہ خطوط ہیں، جن میں ان کے دوستوں کے جذبات چھپے ہوئے ہیں۔ کسی میں کوئی ذاتی بات ہے، تو کسی میں شاعری ہے تو کسی میں ان کے ملک و شہر کی کہانیاں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 18 سالہ رزبین نے کبھی اپنے گاؤں سے باہر قدم نہیں رکھا اور نہ ان لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے تحائف بھیجے ہیں۔ پھر بھی وہ ان کی زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں۔

یہ تحائف اور خطوط سب رزبین کے قلمی دوستوں کی جانب سے آئے ہوئے ہیں- رزبین گذشتہ تین سالوں سے تقریباً 43 ممالک کے قلمی دوستوں سے روابط میں ہیں۔ ان کے پاس 70 سے زائد وہ خطوط ہیں، جن کے جوابات موصول ہوئے ہیں اوران میں تحائف بھی ہیں۔

رزبین کہتی ہیں کہ ان کا شوق اگرچہ بہت سےلوگوں کوبڑا عجیب لگتا ہے، مگریہ شوق ایک افسردہ واقعہ کے بعد پیدا ہوا۔

رزبین کہتی ہیں کہ خط کے الفاظ انہیں سکون دینے کا کام کرتے ہیں۔

رزبین جب آٹھ سال کی تھی تب ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ رزبین اور اس کے بھائی ابیک نے اپنی والدہ راحینہ امینیئل کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

اس علیحدگی کی وجہ سے رزبین بہت زیادہ متاثر ہوگئی کیوں کہ گاوں والوں کے ساتھ ساتھ اکثران کی ہم جماعت اور پڑوسی اس بات پرمذاق اڑاتے تھے کہ ان کے ماں باپ الگ ہوگئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میں جب نویں جماعت میں تھی۔ اس وقت میری ایک دوست نے مجھے یتیم کہہ کر مخاطب کیا۔ اور میرے دوستوں کی ماوں نے اپنی بیٹیوں کو میرے ساتھ کھیلنے سے خبردار کیا کیونکہ میرے والد نہیں تھے۔

اس سے میرا ذہن بہت متاثر ہوا۔ میں نے لوگوں سے ملنا جلنا بالکل بند کرد یا۔

وہ بتاتی ہیں کہ مجھے پہلا خط 2018 میں امریکہ میں رہنے والی میکسیکن سارہ کی طرف سے موصول ہوا۔ انہوں نے میرے انسٹاگرام پروفائل کو فولو کیا۔ میں اپنے پیج پرآرٹ اور کرافٹ کی بہت سی تصاویر پوسٹ کرتی رہی،جسے وہ پسند کرتی تھیں۔ پھر انہوں نے میرا پتا پوچھا اور مجھے کرسمس کے لیے پوسٹ کارڈ بھیجا۔

میں نے بھی اس کا جواب لکھا۔ اس وقت سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔

رزبین فی الوقت بی ایس سی سائیکالوجی کے پہلے سال کے طالبہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ایک اجنبی نے مجھے ہنسانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے دو چیزوں کا احساس ہوا۔ ایک یہ کہ ہماری دنیا ہمارے پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بالکل مختلف ہےاور دوم یہ کہ میں اکیلی لڑکی نہیں ہوں بلکہ میرے جیسے اور بھی لوگ یہاں موجود ہیں۔

سارہ سے رابطے کے بعد رزبین نے دوسرے ممالک میں رہنے والے لوگوں سے بھی رابطے قائم کرنے شروع کر دیے۔ان کے کچھ دوستوں نے انہیں خط کے ساتھ ساتھ تحائف بھی بھیجنے شروع کر دیے۔

ان کے پاس جو خطوط آتے ہیں، ان میں موضوعات پر باتیں ہوتی ہیں، ان میں دستکاری، تہذیب و ثقافت، آب و ہوا، معاشرہ، اسکول، نصاب، خوراک اور لباس وغیرہ بارے میں باتیں رہتی ہیں۔

 انہوں نے اس موقع پر کہا کہ میں جانتی ہوں کہ ہم ایسی معلومات کو گوگل پر بھی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جب آپ اپنے کسی قلمی دوست کی چھٹی میں ان واقعات و حالات کو پڑھتے ہیں تو اس سے ایک الگ قسم کا تاثر قائم ہوتا ہے۔

awaz

رزبین نے بتایا کہ وہ اپنے خطوط میں ریاست کیرالہ ، یہاں کے رسم و رواج ، خوبصورتی ، بیک واٹر وغیرہ بارے میں بتاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میں اپنے کچھ قلمی دوستوں کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی بھی شیئر کرتی ہوں۔

بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی رزبین کی دوست میگی ہے۔ میگی سے ان کی بات کورونا وائرس کی وبا سے متعلق ہوئی، جب کہ ترکی کی ایک دوست نے رزبین کو کینسر سے متاثرہ ہونے کی کہانی سنائی۔

خط لکھنے کا فن آہستہ آہستہ اب ختم ہوتا جا رہا ہے، ریزبن کو اس کے خطوط موصول ہونے میں کئی ہفتوں کا وقت لگ جاتےہیں۔ تاہم وہ اس کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور اس سے انہیں خوشی ملتی ہے۔

اس کے اس شوق کو پورا کرنے میں ان کی والدہ بھی ان کا تعاون کرتی ہیں۔ جب کہ محلہ و پڑوس کے افراد اب بھی ان کا مذاق اُڑاتے ہیں، تاہم رزبین اب برا نہیں مانتی اور اپنا سارا دھیان دوسری چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں۔