'دانش صدیقی آج بھی دلوں میں بستے ہیں'

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
دانش صدیقی پلیٹزر ایوارڈ پانے والوں کے ہمراہ
دانش صدیقی پلیٹزر ایوارڈ پانے والوں کے ہمراہ

 

 

شائستہ فاطمہ، آوازدی وائس، نئی دہلی

 ہندوستان کے معروف فوٹو جنرلسٹ دانش صدیقی کے قبر کی مٹی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی ہے، مگر ان کے اہل خانہ، دوست، بیوی بچے اور ہم منصب ساتھی ایک ایسے شخص کے بغیر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنھوں نے انہیں بہت متاثر کئے تھے۔

دانش صدیقی نے مشہور تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم رہ چکے تھے۔

دانش صدیقی ایک پیشے ور فوٹوگرافر تھے، دنیا کی مشہور و معروف نیوز ایجنسی رائٹر(Reuters) کے لیے کام کرتے تھے۔ وہ گذشتہ 15 جولائی 2021 کو افغانستان کے شہر کندھار میں طالبان کی گولیوں سے ہلاک ہوگئے۔

دانش صدیقی اپنی بہترین کارکردگی اور نازک حالات میں تصاویر لینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
انھوں نے مسئلہ شام، مینمار کے روہنگیا ، ہانگ کانگ احتجاج، سی اے اے ۔ این آرسی دہلی(CAA-NRC ) ، دہلی فسادات، کورونا وائرس ، مہاجر مزدور وغیرہ کی تصاویر لی اور ان پر اسٹوری کور کی تھی۔

دانش صدیقی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ماس کمیونیکشین(A.J.K. Mass Communication Research Centre) کو اس دن بلند مقام پر پہنچا دیا، جب کہ انھیں سنہ 2018 کے لیے پلیٹزر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ انعام انہیں مینمار کے روہنگیا پر غیر معمولی کام کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔

ان کے استاد پروفیسر فرحت بصیر خان(ایچ او ڈی، شعبہ ماس کمیونیکشین) کےئ بقول جب انھوں نے انتہائی خطرناک مقامات سے دانش صدیقی کی تصاویر دیکھی تو افسردہ ہوگئے، لیکن دانش کے چہرے پر کبھی کوئی خوف و حراس نہیں دکھا، بلکہ اس نے انہیں سمجھایا کہ فکر نہ کریں وہ رائٹر کا تربیت یافتہ فوٹو جرنلسٹ ہے، جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح سے متنازعہ مقامات سے تصاویر لینی اور خود کو بچانا ہے۔

ان کے کام کی بدولت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ماس کمیونیکشین کی جانب سے گیسٹ فیکلٹی بھی بنایا گیاتھا۔

پروفسیر ایف بی خان جنھوں نے دانش صدیقی کو سنہ 2005 اور 2007 کے درمیان فوٹوگرافی کی تعلیم دی تھی، کہتے ہیں کہ اس کا انتقال میرا ذاتی نقصان ہے۔

اس نے فوٹو گرافی کو اپنا عملی میدان بنایا جب کہ اس کے دیگر کلاس میٹ نے پروڈکشن اور دوسرے کاموں میں اپنے کرئیر کا انتخاب کیا تھا۔

پروفیسر خان یہ بھی کہتے ہیں کہ جس مقام پر داشن صدیقی کو گولی لگی، وہ کوئی متنازعہ مقام نہیں تھا۔ دانش صدیقی کندھار کے ایک مقامی دکان دار سے جب گفتگو کر رہا تھا، اسی وقت بہت قریب سے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

پروفیسر خان کہتے ہیں جب کہ دانش کو بلایا جاتا وہ کالج ضرور آتا تھا، ان کے جونیئر ان کی باتوں کو سن متاثر ہوتے تھے۔وہ ان کے لیے ایک رول ماڈل بن گیا تھا۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر خان نے کہا کہ وہ دانش کی یاد میں جلد ایک نمائش کا اہتمام کریں گے، جس میں ان کے تمام کارناموں کو دکھایا جائے گا۔

پروفیسر خان کا کہنا ہے کہ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے، ان کے مرنے کے بعد ان کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقت کو بے مثال انداز میں اپنی تصویروں کے ذریعہ بیاں کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ان کی زندگی کا کینوس بہت بڑا تھا، مگر زندگی بہت مختصر تھی۔

دانش اپنی منفرد تصویر کشی کے لیے جانے جاتے ہیں، یہی ان کی پہچان تھی، یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

دانش کی کارکردگی سے متاثر ہوکر ان کے نقش قدم پر چلنے والے فوٹوگرافر مہربان کہتے ہیں ان کی بدولت میں فوٹو جرنلسٹ بن سکا، انھوں نے مجھ دنیا کو دیکھنے کا نیا نظریہ دکھایا، سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے مجھ کو فوٹوگرافی کے فن سے واقف کرایا۔

مہربان کہتے ہیں کہ جب دانش صدیقی ہانگ کانگ میں اپنے کاموں میں مصروف تھے، میں ان دنوں اپنے کیمرے سے کچھ تصاویر لی، انھیں میل کیا اس کو دیکھ کر دانش سر نے مجھے کو کال کیا اور مشوروں سے نوازا۔

مہربان مزید کہتے ہیں کہ دانش نے ان سے کہا تھا کہ اپنا خیال رکھنا، کبھی اچھی تصاویر کے لیے خود کو زک نہ پہنچانا، اس لیے کہ زندگی سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں ہے،ابھی تم جوان ہو، ابھی تمہیں تربیت کی ضرورت ہے۔

مہربان کو دانش کے ساتھ بہار میں کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی تصاویر لینے کے مواقع ملے۔

اس پر مہربان کہتے ہیں جب کہ میں کورونا متاثرین اور ان سے ہلاک ہونے والے کی تصاویر بہت قریب سے لے رہا تھا تو ایسا کرنے سے انھوں نے مجھے روکا تھا اور کہا تھا میں احتیاط کروں۔

دانش نے ہلاک ہونے سے دو دن قبل مہربان سے گفتگو کی تھی اور کہا تھا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر میں ان کے گھر پر آوں۔

عام طور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دانش صدیقی ایک پروفیسر کے صاحبزادے تھے، حالاں کہ انہوں نے رائٹر میں ٹرنینگ کے دوران بہت زیادہ جدو جہد کی تھی۔ وہ ممبئی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے،وہ کمرہ ایسا تھا، جہاں ہر وقت پانی ٹپکٹتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ انھوں نے کبھی اپنے گھر میں کبھی کھانا نہیں بنایا،بلکہ اسٹریٹ فوڈ پر گزارا کیا۔

مہربان کہتے ہیں کہ دانش خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا شخص تھا۔ دانش نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی۔اس تعلق سے جب مہربان نے ان سے پوچھا کہ آپ دونوں کو گفتگو کرنے میں یا رہنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوتی تو دانش نے کہا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، پیار کرتے اور خیال رکھتے ہیں، اس لیے ہمارے درمیان کوئی مسئلہ پید انہیں ہوتا ہے۔

دانش کو ایک بیٹی سارہ اور بیٹا یوسف ہے۔ دانش اپنے مصروف ترین اوقات میں سے اپنے بچوں کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ صوفی نغمہ سنتے تھے، وہ خاص طور پر نصرت فتح علی خان کو سنا کرتے تھے۔

وہ اپنے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے، شاید یہی سبب ہے کہ انھوں نے پلیٹزر ایوارڈ کو اپنے بچوں کے نام ممنون کر دیا تھا۔

دانش کی لاش کو کندھار سے ہندوستان لایا گیا، قومی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا

ان کی یاد میں طلبا و اہل خانہ کی جان سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے گیٹ نمر 17 پر ایک شمع روشن انہیں خراج عقیدت پیش کی گئی۔

 

عمر بھی بیت جائے خبر بھی نہ 

زندگی   اتنی مختصر بھی  نہ ہو