آواز دی وائس : منصور الدین فریدی
اگر آپ اپنے اردگرد دستیاب وسائل کو تلاش کرلیں تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں،بس آپ کو زمینی حقیقت کا علم ہوناچاہیے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ اور باتیں نئی نسل کے لیے بہت اہم ہیں،وہ جس انداز میں اپنے دل و دماغ کی باتیں سب کے سامنے رکھتے ہیں وہ بہت متاثر کن ہے۔ خاص طور پر بچوں کے لیے ان کے مشورے اور بات چیت ہر کسی کو ایک عجیب سا احساس اور حوصلہ دیتا ہے۔
یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پی ایم مودی کی حوصلہ افزائی آپ کی سوچ اور سمت بدل سکتی ،آپ میں کچھ کردکھانے کی تڑپ میں اضافہ کرسکتی ہے۔
ان تاثرات کا اظہار علی گڑھ کے محمد شاداب نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کیا۔ جنہیں پیر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 'پردھان منتری راشٹریہ بال پراسکر' سے نوازا۔ان ایوارڈز کے لیے ملک بھر سے 61 بچوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ جن میں گزشتہ سال 32 اور اس سال 29 بچوں کا انتخاب کیا گیا تھا بکہ کورونا کی وجہ سے ورچوئل تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
کیسے آئے سرخیوں میں
علی گڑھ سول لائن کے جمال پور میں رہنےوالے ایک غریب خاندان کے ہونہار طالب علم محمد شاداب اس وقت سرخیوں میں آئے تھے ۔جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منٹو سرکل سے نویں کلاس میں تھے۔ تب انہیں آل انڈیا ایکسیس پری انگلش کیمپ ممبئی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ کیمپ میں امریکی ٹرینر ٹام نے کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اور اسٹڈی اسکالرشپ کے بارے میں معلومات دیں۔اس کےبعد 28 ہزار امریکی ڈالر کی کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اور اسٹڈی اسکالرشپ کے ذریعے بیلفاسٹ ایریا ہائی اسکول، یو ایس اےمیں تعلیم حاصل کی اور 97.6 فی نمبر حاصل کرکے اسکول میں ٹاپ کیاتھا۔ یاد رہے کہ محمد شاداب نے نویں کلاس تک اردو میڈیم سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ میڈم کوئی رکاوٹ نہیں آپ کی محنت اےور اعتماد اہم ہے۔
امریکہ میں ترنگا لہراتے محمد شاداب
خواب کا حقیقت بننا
محمد شاداب کہتے ہیں کہ یقینا میں معاشی طور پر کمزور گھرانے کا طالب علم تھا مگر میں نے کبھی مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ کوئی بہانہ بنانے کے بجائے آس پاس موجود وسائل کو تلاش کیا جائے اور ان کا استعمال کیا جائے۔ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔کسی بھی کام کے لیے محنت تو شرط ہے لیکن اس کے ساتھ آپ کو زمینی حقیقت سے بھی آگاہ رہنا ضروری ہے جس سے آپ کے لیے نہ صرف راستہ آسان ہوتا ہے بلکہ نئی راہیں بھی کھلتی ہیں۔یاد رہے کہ محمد شاداب کے والد علی گڑھ میں موٹر میکینک ہیں۔ شاداب نے کہا کہ میرے والدین ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ زندگی میں کچھ ایسا کرو کہ ملک تمہیں یاد رکھے۔ میرا بھی خواب تھا کہ کچھ ایسا ہی کروں۔
مودی سے بات کا تجربہ
محمد شاداب کہتے ہیں کہ تعلیمی کامیابی کے بعد پچھلے سال جنوری میں یوم جمہوریہ کے موقع پر دئیے جانے والے’ راشٹریہ بال پرسسکار‘ ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیاتھا۔اس وقت پی ایم مودی سے ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے ان کی بات ہوئی تھی۔جوکہ ایک یادگار تجربہ تھا۔ وزیراعظم نے سوال کیا تھا کہ آپ کو اچھا کام کرنے کے لیے ترغیب کس سے ملتی ہے؟ اس پرمیں نے کا تھا کہ والدین اور اساتذہ ان کے لئے باعث ترغیب رہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے دوران وہ بری طرح نروس ہوگئے تھے لیکن پی ایم مودی نے ہی انہیں سنبھالا بلکہ انہیں حوصلہ دیا۔ ایسا محسوس کرایا گویا کوئی ٹیچر بات کررہا ہو۔جس کے سبب میں سنبھل گیا تھا۔یہ ایک قائد کی کوائلٹی ہوتی ہے جو اسے سب سے مختلف بناتی ہے۔
محمد شاداب ایک مثالی نوجوان
بوں میں جوش بھر دیا
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے محمد شاداب نے کہا کہ اس بار بھی سب کچھ ور چوئل ہوا جس کے سبب پی ایم مودی سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا مگر جو کچھ سنا وہ بھی بہت اہم تھا۔ پی ایم مودی نے بچوں میں یہ کہہ کر جوش بھر دیا کہ آپ ملک کا مستقبل ہیں اور آگے بڑھیں ۔بغیر کسی دباو ملک کی تعمیر میں اپنا کردار نبھائیں ۔ایسی باتیں بچوں جوش اور اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔جس کا تجربہ خود مجھ کو ہوا ہے۔
محمد شاداب کہتے ہیں پی ایم مودی نے کہا کہ ہمیں لوکل یعنی دیسی اشیا کو گلے لگانا چاہیے اکہ ملک کی اقتصادیات مضبوط ہوگی اور ہم ہر میدان میں خود کفیل بنیں گے۔اس کے لیے ہمیں بیرونی اشیا کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔ساتھ ہی انڈیا گیٹ پر نیتا جی کے مجسمہ کا ذکر کرتے ہوئے پی ایم مودی نے بچوں سے کہا کہ آپ ایسی شخصیات کی باتوں اور نظریہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے تو مستقبل مزید بہتر ہوگا۔
امریکہ کا پہلاسفر
اس اسکالر شپ کے ساتھ محمد شاداب نے انصاف کیا ۔وہ امریکی اسکول میں جس میں 9ویں سے 12ویں جماعت تک تقریباً 500 بچے زیر تعلیم تھے۔ فروری 2020 میں اسٹوڈنٹ آف دی منتھ بھی منتخب کیے گیے تھے۔ محمد شاداب ایک سال بعد لوٹ کر واپس آگئے تھے لیکن بقول ان کے امریکہ سے واپس آنے کے بعد مجھے لگا کہ میں کچھ اور چیزیں سیکھ سکتا تھا اور کامیابی کی راہ پر گامزن رہ سکتا تھا، بدقسمتی سے میری اسکالرشپ صرف ایک سال کے لئے تھی۔مگر کہتے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔اللہ راستے پیدا کرتا ہے۔ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہو ا
علی گڑھ میں محمد شاداب اور
علی برادری نے دیا سہارا
امریکہ میں مزید تعلیم کے حصول کے لیےمحمد شاداب اے ایم یو کے سابق طلبہ، مخیر حضرات، مراکشی میزبان کنبہ، اور میڈیسن ایسٹ ہائی اسکول کے شکرگزار ہیں۔ محمد شاداب کی امریکہ میں مقیم اے ایم یو کے سابق طالب علم مسعود اختر نے بہت مدد کی۔محمد شاداب کی مدد کے لیے اے ایم یو کے سابق طلبہ اور مخیر حضرات آگے آئے اور سالانہ ٹیوشن فیس، ویزا خرچ، ایئر لائن ٹکٹ، ہیلتھ انشورنس، رہائشی اخراجات وغیرہ کو پورا کرنے کے لیے فنڈ جمع کیا۔ یہی نہیں مراکش کے ایک خاندان نے محمدشاداب کی میزبانی قبول کی۔
منزل کیا ہے
شاداب نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ان کا خواب اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے افسر کی حیثیت سے ہندوستان کی نمائندگی کرنا ہے۔ وہ آئی اے ایس بننا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے دنیا کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا۔ پہلے میں صرف اپنے شہراور ملک کے بارے میں ہی سوچتا تھا۔ دنیا بہت بڑی ہے۔ تمام ممالک کو ایک ساتھ رہنا چاہئے۔
امریکی اسکول میں محمد شاداب
محمد شاداب کہتے ہیں کہ والدہ زرینہ بیگم اور والد ارشد نور تعلیم یافتہ نہیں لیکن اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔کیونکہ اب اس بات کو ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ تعلیم ہی زندگی کو سنوارنے کا واحد طریقہ ہے۔جو نہ صرف معاشرے بلکہ ملک کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔ محمد شاداب نہ کہا کہ میری کامیابی اور اعزاز سے ہر کوئی خوش ہے ،پڑوسی ،محلے والے اور شہر والے۔ اسکول کے پرنسپل اوراساتذہ ۔جنہوں نے مجھے بڑے نازک وقت میں رہنمائی کی تھی جس کے بغیر یہ کامیابی مشکل ہوتی ۔