عمرکے حوصلے نے ’’کوسکی‘‘ کو بنادیابرانڈ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-08-2021
عمرکے حوصلے نے ’’کوسکی‘‘ کو بنادیابرانڈ
عمرکے حوصلے نے ’’کوسکی‘‘ کو بنادیابرانڈ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

بنگلور

کہیے تو آسماں کو زمیں پراتارلائیں

مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے

اس شعرکو حقیقت کا روپ دیا ہے بنگلورکے عمراختر نے جنھوں نے زندگی کی دھوپ چھائوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ، اپنی کائنات خود اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔ ’’کوسکی‘‘ آج ایک برانڈہے، بنگلورمیں خریداراس کی جانب بھاگے آتے ہیں، جو نہیں آتے وہ آن لائن خریداری کرتے ہیں۔کوسکی ایک دن میں 35 کروڑ روپے کی کوسکی نہیں بنی ہے۔عمراخترکے جدوجہد کی اس کہانی سے کم ہی لوگ واقف ہیں جس کا آغازتب ہواتھا جب وہ محض سولہ سال کے تھے۔

مشکل وقت۔۔

عمر اخترکے اسکول کا زمانہ تھا۔ ان کے والد سیف اللہ اختر جو مینوفیکچررز سے ساڑیاں خرید کر خوردہ فروشوں کو بیچاکرتے تھے،اچانک کاروباری مسائل سے الجھ گئے۔ عمر کہتے ہیں ، "ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے اور ہمارے والد گھر سے کاروبار کرتے تھے کیونکہ ہماری کوئی دکان نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد ، میں اپنے والد کے ساتھ اپنے اسکوٹر کی پشت پر ساڑھیوں کا ایک بہت بڑا گٹھر لے کر بازار جاتا تھا۔‘‘

awaz

جب عمرکے والد کا کاروبارخراب ہوگیا تو زندگی کو پٹری پرلانے کی جدوجہد شروع ہوئی اور اس میں عمرکو اپنی تعلیم کی قربانی دینی پڑی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے والد کے چھ بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ زندگی کے بکھرے تانے بانے کو کو دوبارہ سمیٹنے کی کوشش ہوئی۔قریبی دوستوں اور خاندان کی مدد سے سیف اللہ نےدکان کرائے پر لینے کے لیےکچھ رقم جمع کی اور عمر کو کولار کی دکان پربٹھانے کا فیصلہ کیا۔تب وہ11 ویں کلاس میں تھے

سفرکاآغاز

۔1991 میں عمر کے کاروباری سفر کا آغاز ہوا۔ اس بیچ پڑھائی بھی جاری رہی لیکن باقاعدگی سے اسکول نہیں جاپاتے تھے۔ صرف امتحان دینے اسکول گئے۔ کاروبار کی ذمہ داری کے سبب انھیں ملک بھر کا سفر کرنا پڑتاتھا۔ وہ یاد کرتے ہیں ، "جب ہم نے دکان کرائے پر لی تو ہم نے اس کا پرانا نام 'مینا بازار' رکھا۔ سفر واقعی سست شروع ہوا لیکن چند مہینوں میں ، ہم نے روزانہ ایک ہزار روپے کمانا شروع کر دیے ، جس سے ہمارے خاندان کوقرض کی ادائیگی میں مدد ملی۔ اگلے چند سالوں میں ، انہوں نے اپنے قرضوں کو صاف کیا اورعمر نے کالج میں داخلہ لیا۔ اس طرح وہ گریجویشن کرنے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد بن گئے۔

کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے عمر نے ایم بی اے کرنے کا سوچا۔ تاہم کولار ایک چھوٹا شہر تھا ، اس کے پاس ایم بی اے کے لیے کالج نہیں تھا اور قریب ترین آپشن بنگلورو تھا۔ لیکن ، چونکہ وہ دکان نہیں چھوڑ سکتے تھے ،لہذااس خیال کو ترک کر دیا اور اس کے بجائے ماسٹرس آف کامرس میں بیٹھ گئے۔ پوسٹ گریجویشن کے رزلٹ نے عمر کے خاندان کو دنگ کردیا۔ وہ اپنی انسٹی ٹیوٹ میں ٹاپر تھے۔

awaz

بیرون ملک کا پہلا سفر

اس دوران عمرکے دادا نے انھیں بلایا اور کہا کہ وہ اپنا خوردہ کاروبار دبئی تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ عمر کہتے ہیں ، "میں نے کبھی ہندوستان سے باہر قدم نہیں رکھا تھا اور فلائٹ میں سفر کرنے کا خیال ایک خواب جیسا تھا۔ میں فورا راضی ہو گیا اور میں دبئی کی طرف روانہ ہو گیا۔‘‘ حالانکہ وہاں سے عمر کوجلد ہی واپس آنا پڑاکیونکہ دبئی میں کاروبارکے سلسلے میں کئی قانونی رکاوٹیں تھیں۔ احساس ہوا کہ وہ ایک آزاد کاروبار قائم نہیں کر سکتے اور انہیں اس کے لیے کسی مقامی کے ساتھ شراکت داری کرنی پڑتی۔ یہ منصوبہ کسی طرح ان کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے ہندوستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

انڈیا واپس آکر اس بار عمر نے اپنے دادا کے تعاون سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار یہ جوڑی ہندوستان واپس آئی ، عمر نے اوریکل اور جاوا میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ میں شمولیت اختیار کی۔ کورس کی تکمیل کے بعد ، انھیں میسورو کی ایک چھوٹی سی کمپنی میں سافٹ ویئر ڈویلپر کی حیثیت سے نوکری مل گئی۔انھوں نے 10 سال کام کیا۔ اس بیچ 52 ممالک کا سفر کیا۔

کاروباری کبھی نہیں مرتا

عمر کہتے ہیں کہ تاہم ، میرے اندر اب بھی ایک کاروباری شخص تھا جو کبھی نہیں مرتا تھا۔"عمر کہتے ہیں۔ 2009 میں ، جب وہ امریکہ میں تھے ، انہیں بنگلور کے شیواجی نگر میں ایک دکان کی فروخت کی خبر ملی۔عمر نے اپنی تمام بچت سے اسٹورخرید لیا اور اس کا نام مینا بازار رکھا۔ اور ، اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا گیا۔

ایک حادثہ

شیواجی نگر اسٹور کو صارفین کی جانب سے عمدہ جواب ملا جس نے عمر کے اپنے وژن کو پورا کرنے کی امید کو بڑھایا -مگر 2011 میں ، جب وہ ہندوستان میں تھے ، انھیں ایک حادثہ درپیش آیا اوران کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ،

عمر کہتے ہیں،میری ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔تب میں نے آن لائن جانے کا فیصلہ کیا اور اگلا اسٹور شروع کرنے کے لیے ایک مقام ڈھونڈ لیا ، مجھے معلوم ہوا کہ کامراج روڈ میں ایک دکان دستیاب ہے ، جو کہ مینا بازار کا اگلا سٹور بنانا چاہتا تھا۔ جس دن ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا ، عمر نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ انھیں دکان کے مالک کے پاس لے چلے تاکہ سودا کر سکیں جب کہ وہ ابھی بھی اپنی بیساکھیوں پر تھا۔

عمرنے کہا "میں مالک مکان کو کرایہ کم کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب رہا لیکن میرے والد کو یقین نہیں آیا۔ میرے پورے خاندان نے اس طرح کا خطرہ مول لینے کے میرے فیصلے کی حمایت نہیں کی لیکن میرے عزم نے مجھے آگے بڑھنے سے نہیں روکا اور ہم نے کامراج روڈ پر اسٹور کھول دیا

ایک قدم اور آگے

۔ 2013 میں ، عمر نے چک پیٹ میں ایک اور اسٹور کھولا ، جو کہ خاص طور پر پرانے بنگلور کے لوگوں کے لیے تھا۔اس اسٹورمیں عمرکے والد اور بھائی بھی شامل ہوگئے۔ عمر کہتے ہیں ، "اکیلے انتظام کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

شکر ہے کہ میرا بھائی میرے ساتھ شامل ہوا اور میرے ہر فیصلے میں میرے ساتھ کھڑا رہا ، لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ میرے والد تمام کاموں کی نگرانی کریں۔ 2014 میں ، عمر نے ایک کمرشیل گلی میں ایک اور اسٹور قائم کیا۔ اس کے بعد ، اس نے فیصلہ کیا کہ یہ وقت فل ٹائم کا کاروباری بننے کاہے۔ عمر کہتے ہیں ، "میں نے اپنے برانڈ کو مختلف اشتہاری طریقوں پر فروغ دینا شروع کیا ، بشمول ریڈیو۔

برانڈبننے کی راہ پر۔۔۔

۔ 2016 میں ، عمر نے جے نگر میں ایک اور اسٹور کھولا ، اور اپنے تمام موجودہ اسٹورز کو ’’کوسکی‘‘ کا نام دے کران کی برانڈنگ کی۔ 2017 سے2018 تک ، کوسکی نے فینکس مال ، منتری اسکوائر مال ، اور کامراج روڈ بنگلور پرتوسیع کی۔2019 میں ، برانڈ نے بنگلور سے باہر کیتھیڈرل روڈ ، چنئی پر دکان لگانے کی راہ ہموار کی۔

کوسکی اب لہینگے، ساڑیاں ، کپڑے ، گاؤن اور دیگر کپڑوں کے لئے مشہورہے۔ آٹھ سالوں میں مسلسل ترقی کے بعد ، 2019 میں کمپنی نے 35 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی۔

کوسکی جنوبی ہندکی ایک معروف برانڈہے۔یہ پورے ملک خاص طور پرجے پور ، کولکتہ ، سورت ، ممبئی وغیرہ سے مال حاصل کرتی ہے۔ بہت سے کپڑوں پر اسٹورخود کڑھائی کرواتی ہے۔ بعض کام ہاتھ سے ہوتے ہیں اور بعض مشین سے۔

اسٹور کے ذریعے سینکڑوں افراد روزگار پاتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، عمر کا کہنا ہے کہ ان کا وژن ایک قومی سطح پر جگہ بنانا ہے۔وہ جنوبی ہندسے باہرنکل کر دوسرے شہروں میں اپنے شوروم کوپھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔