منصور الدین فریدی : آواز دی وائس
۔’لوگ کہتے تھے کہ تم مسلمان ہو اور غریب بھی ،تمہارے لیے آئی پی ایس بننا ممکن نہیں،مگر میں نے ثابت کردیا کہ اگر آپ میں محنت کرنے کا جذبہ ہے اور حوصلہ ہے تو کامیابی یا منزل سے کوئی دور نہیں کرسکتا ہے‘۔
یہ الفاظ تھے ملک کے ایک نوجوان آئی پی ایس افسر نور الحسن کے ،یہ نام پچھلے سال اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب پیلی بھیت کے ایک نوجوان نے اپنی غربت اورلاتعداد پریشانیوں کے باوجود نہ صرف اپنے تعلیمی سفر کو مکمل کیا بلکہ ’بی ٹیک‘ کرنے کے بعد پہلے سیمنز میں ملازمت کی اور پھر بھابھا ایٹمی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں سائنسداں بنا لیکن اس کی منزل کہیں اورتھی اس لیے اس کا تعلیمی سفر تھما نہیں بلکہ اس کے بعد آئی پی ایس بن کر چین ملا۔ اب نور الحسن مہاراشٹر پولیس میں تعینات ہیں اور اپنی محنت اور کامیابی کے ساتھ اب سماجی کاموں اور بچوں کی رہنمائی کے لیے توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔
کل انہوں نے اپنے ٹیوٹر اکانٹ پرایک پوسٹ شئیر کی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ آج میرے آفس میں کچھ بہت ہی خاص مہمان آئے جن میں میرے ابا اور امی کے ساتھ تاو اور ماموں جان بھی شامل تھے۔ اس پوسٹ کے ساتھ انہوں نے کئی تصا ویر شئیر کی تھیں۔
اس جذباتی پوسٹ کو ٹیوٹر پر بہت پسند کیا جارہا ہے۔ جس میں نورالحسن بہت ہی فرمانبردار بچے کی طرح اپنے والدین کے ساتھ نظر آرہے ہیں ۔
نوجوان آئی پی ایس افسر نور الحسن اپنے اہل خاندان کے ساتھ، تاوسے سلامی اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھا دیا تاو کو
ٹیوٹر پر صارفین نے نور الحسن کے لیے نیک خواہشات کے ڈھیر لگا دئیے ہیں ، ہر کسی نے لکھا ہے کہ یہ ماں باپ کی دعائیں ہیں ،جو آپ اس مقام پر ہیں۔ کسی نوجوان نے لکھا ہے کہ میں بھی آئی پی ایس افسر بنوں گا۔آپ سے مجھے حوصلہ ملا ہے۔ کسی نے لکھا ہے کہ آپ ہم سب کے لیے ایک تحریک ہیں۔اللہ آپ کو مزید کامیابی عطا کرے۔
آج نور الحسن ملک کے لاکھوں نوجوانو ں خاص طور پر نور الحسن کی کامیابی کی ایک لمبی کہانی ہے۔ ان کے والد درجہ چہارم کے ملازم تھے ۔ نور الحسن کا بچپن پیلی بھت میں گزرا تھا اور اس کے بعد بریلی میں زندگی گزری۔ یہ تعلیمی کامیابی بریلی میں ہی حاصل کی تھی۔جس کا سلسلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی جاری رہا تھا۔
ان کی کہانی ملک کے لاکھوں نوجوانوں خاص طور پر مسلم نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے جو کسی بھی میدان میں تعصب یا جانبداری کا خوف یا خدشہ رکھتے ہیں یا اس سوچ کے سبب اپنی تعلیمی منزل کے بارے میں سوچنا ترک کردیتے ہیں۔
Today I have got the opportunity to welcome very very special guests to my office, because of whom I am here today : My Ammi, Papa, Tauji and Mamu jaan pic.twitter.com/06bUqTMHyC
— Noorul Hasan, IPS (@noorulhasan90) September 14, 2021
نور الحسن کی زندگی کی کہانی پڑھنے سے قبل ان کی زندگی کے بارے میں ان کے پسندیدہ اشعار پڑھ لیں ۔جو کسی بڑے پیغام سے کم نہیں لیں۔
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
زمین سے آسمان تک کا سفر
پیلی بھیت کے ایک گاؤں ہری پور کے رہنے والے نورالحسن نے محنت سے اپنے خوابوں کو سچ کیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہندی میڈیم میں ایک سرکاری اسکول سے کی۔ اس نے میٹرک کا امتحان گرو نانک ہائر سیکنڈری سکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بھوشن انٹر کالج ، بریلی میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد محنت کش انسان تھے جو مزدوری کیا کرتے تھے ۔خاندان کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ کسی طرح دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا۔پرائمری تعلیم تو مل چکی تھی لیکن آگے کا سفر کٹھن تھا۔
پرانی یادیں:نورالحسن پیلی بھیت میں اپنے اسکول میں اساتذہ کے ساتھ
پیلی بھیت سے بریلی
جب نور الحسن نے دسویں پاس کی تو اس کے والد کو بریلی میں کلاس فور ملازم کی نوکری مل گئی۔ نور الحسن کو پڑھنے کے لیے والد نے کچی آبادی میں ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر دیاتھا۔ وہاں سے اس نے بارہویں جماعت تک اپنی تعلیم مکمل کی۔
نور الحسن بتاتے ہیں کہ بارہویں کرنے کے بعد اس نے بی ٹیک کرنے کا فیصلہ کیا ، آئی آئی ٹی کوچنگ کے لیے اسے 35 ہزار روپے درکار تھے جس کے لیے اس کے والد کو 1 ایکڑ زمین بیچنی پڑی۔ اس رقم سےنورالحسن نے کوچنگ کی فیس ادا کی اور 70 ہزار میں ایک کمرے کا مکان خریدا۔اس کے ساتھ میں نے سخت پڑھائی شروع کی۔ ان کے خاندان میں اس پر بہت تنقید کی لیکن انہوں نے صرف تعلیم اورتیاری پرتوجہ مرکوز رکھی۔
فیس کے مسئلے کی وجہ سے انہوں نے بچوں کو فزکس اور کیمسٹری کی کلاسیں دینا شروع کیں ، اور ان پیسوں سے کالج کی فیس ادا کیا کرتے تھےچونکہ نورالحسن نے چوتھی کلاس سے انگریزی مضمون کی بنیادی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے انگریزی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ ذاکر حسین کالج سے بی ٹیک کرنے کے بعد وہ سال 2009میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچے۔
اے ایم یو میں سول سروسز کے امتحان کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ اس دوران ان کی پہلی ملازمت گروگرام کی ایک کمپنی میں تھی۔ اس کے بعد وہ بھابھا ایٹمی ریسرچ سینٹر (بی اے آر سی) میں شامل ہوئے۔ اس دوران وہ سول سروسز امتحان کی تیاری کرتے رہے ۔ انہوں نے سال 2015 میں یو پی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔
سائنسداں بھی بنے مگر ۔۔۔۔
بی ٹیک مکمل کرنے کے بعد نورالحسن کو دو بڑی کمپنیوں میں جگہ مل گئی۔ اس نے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اور سیمنز لمیٹڈ کے درمیان سیمنز کا انتخاب کیا۔ انہوں نے یہ ملازمت دو چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کے لیے اور خاندان کو سنبھالنے کے لیے کی تھی۔ لیکن ایک سال کے دوران انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ وہ کسی پرائیویٹ نوکری کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں اس نے بھابا ایٹمی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا امتحان دیا اور وہ لیکن تاراپور سنٹر میں بطور سائنسدان منتخب ہوئے۔ مگر ان کی زندگی کے تعلیمی سفر اور بے چینی میں ٹھہراو نہیں آیا ۔وہ اس کردار میں بھی خود کو موزوں نہیں پا رہے تھے۔
تیسری کوشش میں بنے آئی پی ایس
نور الحسن نے اس کے بعد آئی پی ایس کو اپنی منزل بنایا ۔وہ پہلی کوشش میں ابتدائی امتحان بھی نہیں دے سکے تھے۔ اس کے بعد بہتر تیاری کے ساتھ دوسری بار پھر امتحان دیا ۔ اس بار دونوں ابتدائی اور مین امتحان پاس کیا ۔لیکن انٹرویو میں 129 نمبروں کی وجہ سے منتخب نہیں ہو سکے تھے۔اس کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس ناکامی سے بھی ہار نہیں مانی اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کے بعد 2014 میں ایک بار پھر سول سروسز کا امتحان دیا ۔ اس بار اس نے نہ صرف امتحان پاس کیا بلکہ انٹرویو میں 190 نمبر حاصل کرکے آئی پی ایس بن گئے ۔
صرف تعلیم ہی آپ کی حالت بدل سکتی ہے اب آئی پی ایس نور الحسن کا ماننا ہے کہ ایک شخص تعلیم کے ذریعے ہی اپنے حالات کو بدل سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے والد نے اپنی تعلیم کے لیے زمین فروخت نہ کی ہوتی تو وہ آج آئی پی ایس نہ ہوتے۔
وہ ملک کے ہر والدین کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چاہے آپ کو گھر میں ایک وقت کے لیے کم کھانا کھانا پڑے لیکن آپ کے بچوں کو اسکول ضرور بھیجنا چاہیے۔ اس کے علاوہ وہ تمام نوجوانوں کو بھی یہی پیغام دیتے ہیں کہ محنت اور لگن سے ہی ان کا مستقبل بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ نورالحسن کا کہنا ہے کہ اگر آپ میں صلاحیت ہے تو ہندوستان جیسے ملک میں آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بچوں کی مفت رہنمائی
نورالحسن نے اپنی زندگی میں صحیح رہنمائی کی کمی کو محسوس کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بارہویں جماعت تک بی ٹیک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ کمزور معاشی حالت اور خاندان میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے اسے ان تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لیے وہ اپنے یوٹیوب چینل ’فری اکاڈمی‘کے ذریعے ملک کے لاکھوں بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔تاکہ ملک کے کسی بھی دوسرے نوجوان کو اس صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کا اسے سامنا کرنا پڑا۔
نورالحسن اپنی شریک حیات ارم سیفی
نور الحسن سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے سفر میں کئی لوگوں نےبتایا کہ ان کے مسلمان ہونے اور غریب خاندان کی وجہ سے ’ یو پی ایس سی ’سول سروسز میں سلیکٹ ہونا مشکل ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے اعتماد اور محنت سے ثابت کیا کہ کامیابی کسی مذہب یا معاشی حالت پر منحصر نہیں ہوتی۔
نوجوانوں اور سول سروس کے خواہشمندوں کے لیے نور الحسن کا پیغام
زیادہ سے زیادہ بڑا خواب دیکھیں لیکن ہمیشہ اپنے آپ کو پلان بی کے لیے تیار کریں۔ پلان بی کے بعد بھی پلان سی کا ہونا ضروری ہے۔
اپنی منزل کا جلد از جلد فیصلہ کریں اور اس کی طرف کام شروع کریں۔
میری رائے میں، کامیابی ہر دن کے کام کا خلاصہ جو برسوں تک انجام دیا جاتا رہا۔
اپنی کمزوری کا خود جائزہ لیں
اپنے ہدف کو سالوں، مہینوں، ہفتوں اور دنوں میں تقسیم کریں اور ہر روز تھوڑا سا آگے بڑھیں۔ ہر روز کچھ نہ کچھ حاصل کریں۔
اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک جذبہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔
اپنے سینئرز سے بہترین ممکنہ رہنمائی حاصل کریں۔ دوسروں کے تجربے سے سیکھنا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔
ناکامیوں سے کبھی حوصلہ شکنی نہ کریں۔
سول سروس کا امتحان صبر اور خود اعتمادی کا امتحان ہے۔ لہذا ناکامی کے بعد آخر میں آپ کو کامیابی ملے گی.
My interview on guidance for civil services preparationhttps://t.co/EJpb0YU6Bs pic.twitter.com/8LsC9zV4dD
— Noorul Hasan, IPS (@noorulhasan90) September 13, 2020