ناگپور:آکسیجن کی کمی کے شکارکورونامتاثرین کے لئے فرشتہ رحمت، پیارے خاں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-04-2021
پیارے خاں
پیارے خاں

 

 

کورونا نے ملک بےحال کر رکھاہے،لاکھوں افرادزندگی اورموت کی کشمکش میں ہیں۔ ایسے میں صنعت کاروں اوراسپتالوں کوکمائی کا سنہراموقع ملاہے۔اس برے وقت دولت مند طبقے کوعوام الناس کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھاناچاہئے مگر وہ اپنی عیش گاہوں میں مست ہیں۔ ایسے میں مدد کے لئے ایک ایساہاتھ آگے بڑھا ہے جسے پہلے سے لوگ نہیں جانتے تھے۔

میڈیا کے ایک محدود حلقے میں ہی خبرآئی ہے کہ پیارے خان نامی ایک شخص نے ناگپور کے ایک سرکاری اسپتال کوسولہ ٹن آکسیجن پہنچایا ہے تاکہ آکسیجن کی کمی سے مرنے والے کورونامتاثرین کوبچایاجاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ قابل قدر ہیں جو اپنے دل میں انسانیت کی خدمت کا ایسا جذبہ رکھتے ہیں۔ ناگپور میں جماعت اسلامی ہند بھی ایک اسپتال چلاتی ہے جس میں 100 بسترکورونامریضوں کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں۔یہاں بھی آکسیجن کی کمی ہورہی ہے اور مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے،ایسے میں اسپتال کے ذمہ دار ڈاکٹر انور نے بھی پیارے خان سے درخواست کی ہے کہ ان کے اسپتال کو آکسیجن کا ایک ٹینکرفراہم کیاجائے اور وہ اس کی تیاری میں ہیں۔یہی نہیں ، پیارے خان نے مرکزی وزیر نتن گڈکری کو کورونا مریضوں کی مدد کے لئے 50 لاکھ روپے کی امداد بھی فراہم کی ہے۔

پیارے خان ٹرکوں کے ساتھ

کون ہے یہ فرشتہ رحمت؟

مشکل گھڑی میں عام لوگوں کی مدد کے لئے آگے آنے والا پیارے خان کون ہے؟اس کا پس منظر کیا ہے؟ اس قسم کے سوال آج کل لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں ان کے تعلق سے بہت کم میڈیا میں آیا ہے۔ بہرحال ان کی زندگی کی کہانی پوری فلمی ہے۔ذرائع کے مطابق ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے رہا ہے جس نے اپنی محنت ۔قسمت اوردیانت کے سبب خوب ترقی کی اور دولت کمائی مگر پرانے دن کو نہیں بھولا۔

اسٹیشن پر سنترے بیچے

پیارے خان ، اصل میں ناگپور ، مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں ، جوایک کچی آبادی میں رہتے تھے۔غربت کے سبب انھوں نے ریلوے اسٹیشن پر سنترے بیچے مگراب ایک ملٹی ملین کمپنی کے مالک ہیں اور ایک ہزار لوگ ان کے ہاں کام کرتے ہیں۔ پیارے خان کی کامیابی کی کہانی کافی متاثر کن ہے۔ وہ دسویں کلاس میں ناکام ہوگئے تھے۔پیارے خان خودبتاتے ہیں کہ وہ ایک کچی آبادی میں پیدا ہوئے تھے۔ ماں ایک گروسری کی دکان چلاتی تھی۔ والد گھوم گھوم کر کپڑے بیچتے تھے۔ گھر کی خراب معاشی حالت کو دیک ، ریلوے اسٹیشن پر سنترے بیچنے شروع کردیا۔

پیارے خاں ایوارڈ لیتے ہوئے

اسکول میں فیل ہوئے

ادھر پیارے خان نے بھی پڑھائی جاری رکھی ، لیکن وہ دسویں جماعت پاس نہ کرنے کی وجہ سے اسکول سے نکال دئے گئے ، پھر ماں کے زیورات بیچ کر ، 11 ہزار روپے کی ڈاون ادائیگی کی اور آٹو خریدا۔ اب آٹو سے سنترے بیچنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ2001 تک جاری رہا۔

بینک قرض دینے سے انکار کرتے تھے

،ان کا کہنا ہے کہ 2001 کے بعد ، یہ محسوس ہوا کہ کچھ بڑا کرنا چاہئے ، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پیسہ نہیں تھا۔ کسی سے 50 ہزار کا قرض مانگا تو وہ گھر کے کاغذات اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ پھر بینکوں سے قرضوں کے لئے چکر لگایا۔ مکان کچی آبادی کے علاقے میں ہونے کی وجہ سے ، کوئی بینک قرض نہیں دے رہا تھا۔ آخر کار ، 2004 میں ، آئی این جی ویشیا بینک سے 11 لاکھ کا قرض ملا۔ چھ ماہ بعد ، ٹرک کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ بینک سے 11 لاکھ روپے کا قرض لینے کے بعد ، پیارے خان نے اس رقم سے ٹرک خریدا جو ناگپور احمد آباد کے درمیان چلاتے تھے۔

اشمی گروپ آف کمنیزکاشاندارآفس

ٹرک کا اکسیڈنٹ ہوگیا

ان کا خیال تھا کہ اب تقدیر موڑلینے والی ہے ، لیکن چھ ماہ کے اندر ہی ٹرک کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ رشتہ داروں اور دوستوں نے پیارے خان کو ٹرانسپورٹ کا کاروبار چھوڑنے کا مشورہ دینا شروع کردیا ، لیکن پیارے خان نے ہمت نہیں ہاری۔ ٹرک کی مرمت کروانے کے بعد ، اسے دوبارہ سڑک پر لے آئے۔ کچھ دن بعد پیارے خان کا کاروبار ٹریک پر آگیا۔

اچھاوقت بھی آیا

۔ سال 2007 میں ، انہوں نے اشمی روڈ ٹرانسپورٹ کے نام سے اپنی کمپنی تشکیل دی۔ اب پیارے خان کی کمپنی اشمی روڈ ٹرانسپورٹ کو کام ملنا شروع ہوا۔ ٹرک اور عملہ بھی بڑھنے لگا۔ سال 2013 میں ، بھوٹان کچھ سامان لے جانے والا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ راستے میں ایک دروازہ تھا ، جو ساڑھے تیرہ فٹ اونچا تھا۔

جبکہ ٹرک کی اونچائی ساڑھے 17 فٹ تھی۔ ایسی صورتحال میں ، ہندوستان میں زیادہ تر ٹرانسپورٹرز نے یہ کام لینے سے انکار کردیا۔ مگر پیارے خان نے اسے چیلینج کے طور پر لیا۔ وہ خود بھوٹان گئے اور دروازہ دیکھا۔ پھر فیصلہ کیا کہ ان کی کمپنی اشمی روڈ ٹرانسپورٹ کا ٹرک اس سامان کو بھوٹان لے جائے گا۔ انھوں نے دروازے کے نیچے اتنی ہی زمین کھودوادی اس طرح ٹرک آسانی سے پہنچ گیا۔

جب دوسرے کام ملے

پیارے خان کی کمپنی نے اس کام کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے بعد کچھ نئے کام پائے۔ وہ نیپال اور دبئی میں بھی ٹرانسپورٹ کا کام کر رہے ہیں۔ کمپنی کے پاس اب 250 ٹرک ہیں۔ سالانہ کاروبار 600 کروڑ تک جا پہنچا ہے۔