مختارالحق کا موازنہ نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی سے کیا جاتا ہے
اب تک 119000 معصوم زندگیوں کو تباہ ہونے سے بچایا
سراج انور/ پٹنہ
بچپن ایک پیارے احساس کا نام ہے- بنی نوع انسان فطری طور پر اپنے بچپن کی محبت سے متصف ہے- انسان عمرکے ہر دور میں کبھی بھی بچپن کو نہیں بھولتا- حالانکہ خوشحال بچپن ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا- ہندوستان میں کروڑوں ایسے بچے ہیں جن کا بچپن زندگی کی دوڑ میں کھو گیا ہے- دکانوں میں برتن مانجتا بچپن، کارخانوں میں دھوئیں میں جھلستا بچپن، دوسروں کے گھروں میں بچا ہوا کھانا کھاکر پلتا بچپن اور سڑکوں پر آوارہ گھومتا بچپن- یہ ہے ہندوستان کے کروڑوں نونہالوں کی روداد جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔لاکھوں کروڑوں معصوم بچوں کے بچپن کو لوٹانے اور ان پر ہونے والے استحصال کو ختم کرنے کے لئے ہی "بچپن بچاؤ آندولن" نامی تحریک کا آغازایک این جی او کی شکل میں ہوا تھا- اس تحریک کا مقصد بچوں کے حقوق اور انکی فلاح کے لئے کام کرنا ہے۔ "چپن بچاؤ آندولن" کا آغاز 1980 میں کیلاش ستیارتھی نے کیا تھا- کیلاش ستیارتھی کو انکی انھیں بےمثال خدمات کے لئے ملالا یوسف زئی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا تھا-
کیلاش ستیارتھی کی طرح ہی ایک اور شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی بچوں کے استحصال کو ختم کرانے میں وقف کر دی- اس ہستی کا نام ہے مختار الحق- "بچپن بچاؤ آندولن" کی تحریک کو ایک نئی اونچائی تک پہنچانے میں بہار کے نوادہ کے رہائشی مختار الحق کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- تحریک کے لئے انکے عزم اورہمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار انہوں نے سرکس میں کام کرنے والے بچوں کو چھڑانے کی کوشش کی- اس مزاحمت کی پاداش میں انھیں شیر کے باڑے میں پھینک دیا گیا تھا۔ کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک لاکھ انیس ہزار بچوں کی زندگیوں کو تباہ ہونے سے بچایا- یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بچہ مزدوری ہندوستان میں سیکڑوں سالوں سے ہوتی چلی آرہی ہے- لیکن
ا
مختار نے سیکڑوں سال کی اس لعنت کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے
نوادہ سے شروع ہونے والی تحریک پورے ملک میں پھیلی
نوادہ سے شروع ہونے والی یہ تحریک پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے- مختار بتاتے ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے 1987 میں خواتین کو خواندہ بنانے کے لئے کام شروع کیا- اس کام کے لئے جب انہوں نے ضلع کے دور دراز کے دیہاتوں کا دورہ کیا تو کچھ اور ہی حقیقت سامنے آئی- مختار کے سامنے یہ حقیقت کھلی کہ بچہ مزدوری کی لعنت کچھ زیادہ خوفناک شکل میں موجود ہے۔
جے پی آندولن سے ہوئے تھے متاثر
مختار بتاتے ہیں کہ وہ طالب علمی کے زمانے میں این ایس ایس اور این سی سی سے جڑے ہوئے تھے- وہ جے پی آندولن سے خاصے متاثرتھے- لوک نایک کے نام سے مشہور جے پرکاش ناراین کی کرم بھومی بھی نوادہ تھی- جے پرکاش ناراین نے 1952 میں نوادہ کے کواکول میں شیخو دیورا سروودے آشرم کو قائم کیا- جے پرکاش ناراین اور گاندھی جی کے خیالات سے متاثر ہوکر مختار معاشرتی برائیوں کے سدباب کے لئے تعمیری کاموں میں مصروف ہو گۓ- اسی دوران ان کی ملاقات 1985 میں کیلاش ستیارتھی سے ہوئی- ستیارتھی نے بھی جے پی تحریک کے بعد فلاحی کاموں کو کرنا شروع کیا- ستیارتھی نے اپنی تحریک کی شروعات اس وقت کے بہار کے پلاموضلع کے اوٹاری نگر سے کیآج کی تاریخ میں بچپن بچاؤ آندولن ہندوستان کی 15 ریاستوں کے 200 سے زیادہ اضلاع میں کام کر رہا ہے- 70000 سے زیادہ رضاکار اس تحریک کو اپنی خدمات سے رہے ہیں-
پوری زندگی تحریک کے لئے وقف کر دی
مختار الحق نےعمرانیات میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے- 1997 میں جب بچہ مزدوری کے انسداد کے حق مییں ایک گلوبل مارچ کا انقعاد کیا تھا, تب دہلی سے جنیوا تک 103 ممالک کا ایک مشترکہ جلوس نکلا تھا جس میں اس وقت کے بہار کی قیادت مختار الحق نے کی تھی- بہار کے اس وقت کے گورنر نے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا تھا- اس کے علاوہ مختار نے ایک اور منفرد کوشش کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا- 2002 میں مختار نے ہیسوا بلاک کو100 دنوں میں ہی بچہ مزدوری سے پوری طرح پاک بلاک بنا کر تاریخ رقم کر دی- اس بلاک میں 150 گاؤں اور دس پنچایتیں شامل ہیں
تحریک کے دوران جان پر بن آئی
ارناکلم سے دہلی تک 2011 میں ہونے والی سکشا یاترا کی قیادت مختار نے ہی کی تھی، اس کے نتیجے میں 2009 میں رائٹ ٹو ایجوکشن ایکٹ بنا- مختار نے 2007 میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف ہندوستان- نیپال- بنگلہ دیش کی یاترا کا انعقاد کیا- کولکاتا سے بنگلہ دیش، نیپال ہوتے ہوئے دہلی تک ختم ہونے والی اس یاترا میں بنگال اور بہار کے کو آرڈینٹر تھے مختار الحق13 اگست 2004 کے دن مختار نے راجگیر ملماس میلے میں کام کر رہے بچوں کو چھڑانے کے لئے اچانک چھاپے ماری شروع کر دی- گارڈس نے مختار کو پکڑ کر شیر کے باڑے میں ڈال دیا- خوش قسمتی سے مختار کے ساتھی عین وقت پروہاں گۓ- مختار کی جان تو بچی ہی، ساتھ ہی 13 بچے بھی آزاد ہو گیۓ- بہار کی قانون ساز کونسل کے اس وقت کے چیرمین پروفیسر جابر حسین نے اس مشن کو مونیٹر کیا تھا- اسی طرح بچیوں کے جسمانی استحصال کے خلاف 11 ستمبر سے 16 اکتوبر 2017 کو بنگال، اڑیسہ، اتر پردیش، بہار اور جھارکھنڈ سمیت سات یونین علاقوں میں "محفوظ بچپن، محفوظ بھارت" کے نام سے بھارت یاترا نکالی گئ- اس کی قیادت بھی مختارالحق نے کی تھی
دو باررہ چکے تھے ریاستی لیبرکمیشن کے ممبر
مختارکی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ریاستی لیبرکمیشن کا ممبر نامزد کیا گیا تھا- اس کمیشن کے وہ دو مرتبہ ممبر رہے- ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہر غریب کا بچہ خواندہ نہیں ہوگا تب تک بچہ مزدوری کو پوری طرح ختم نہیں کیا جا سکتا-