محمد سراج ۔ ہندوستانی پسماندہ مسلمانوں کا نیا ہیرو

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 15-08-2025
محمد سراج ۔ ہندوستانی پسماندہ مسلمانوں کا نیا ہیرو
محمد سراج ۔ ہندوستانی پسماندہ مسلمانوں کا نیا ہیرو

 



آواز دی وا ئس/ نئی دہلی 

انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں ہندوستان کی جیت کے ہیرو محمد سراج سرخیوں میں ہیں، ہر جانب واہ واہ کا دور جاری ہے، کیا لٹل ماسٹر سنیل گواسکر اور کیا سچن تندولکر، سب نے حیدر آبادی کی خوب سراہنا کی ہے،، یہی نہیں مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین  اویسی  نے بھی ایک معنی خیز پیغام کے ساتھ  داد دی، اب ایک اور دلچسپ نظریہ سامنے آیا ہے جس میں محمد سراج  کو پسماندہ مسلمانوں کی شان قرار دیا گیا ہے 

دراصل  دی پرنٹ پر آمنہ انصاری نے اپنے ایک مضمون میں  محمد سراج کی کامیابی کو پسماندہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا سنگ میل قرار دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ---محمد سراج کی ہندوستان-انگلینڈ ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی، خاص طور پر اوول میں کھیلے گئے آخری میچ کے دوران، ہر طرف سے داد سمیٹ رہی ہے۔ مگر جب تعریف سچن تندولکر جیسے عظیم کھلاڑی کی طرف سے آئے تو سمجھ لیں کہ آپ واقعی کامیاب ہو چکے ہیں۔سچن نے کہا کہ--- ناقابلِ یقین۔ شاندار انداز۔ مجھے یہ رویہ پسند ہے۔ اُس کی ٹانگوں میں جو پھرتی ہے، لاجواب ہے۔ کوئی بھی بلے باز ایسے فاسٹ بولر کو پسند نہیں کرتا جو مسلسل آپ کے سامنے ہو… آخری گیندوں میں اُس کی رفتار 90 میل فی گھنٹہ تھی، یہ جگر دکھاتا ہے، بڑا دل ہے۔"

 آپ کو بتا دیں کہ سراج نے سیریز میں 23 وکٹیں حاصل کیں اورہندوستان کو آخری ٹیسٹ میں صرف 6 رنز سے جتوانے میں مرکزی کردار ادا کیا، سیریز 2-2 سے برابر ہوئی اور ہر طرف سے انہیں خراجِ تحسین ملا۔

پسماندہ فخر

وہ مزید لکھتی ہیں کہ 31 سالہ محمد سراج، جو عام پس منظر سے اُٹھ کر آئے، آج ہندوستان کے سب سے بھروسہ مند فاسٹ بولرز میں شمار ہوتے ہیں، ہر فارمیٹ، ہر کنڈیشن اور دباؤ میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے۔ کئی بار وہ اپنی کرکٹ کارکردگی کی وجہ سے ملک و قوم کے ہیرو بنے، مگر وہ پسماندہ مسلم کمیونٹی کے لیے بھی ایک علامت بن گئے ہیں۔

اپنے مضمون میں انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈر اسدالدین اویسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ --- اویسی نے سراج کو"پاشا" کہہ کر سراہا، ایک ایسا لفظ جو ثقافتی اور ذات پات کے معنی رکھتا ہے۔بہت سے پسماندہ مسلمانوں کے لیے سراج کی ترقی ایک خاموش چیلنج ہے، اُس قومی سوچ کے لیے جو اپنے ہیروز کو بغیر کسی پس منظر کے دیکھنا پسند کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اُن کے کامیاب ہونے کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کہ ایک محنت کش پسماندہ پس منظر رکھنے والا شخص بھی ہندوستان کا فخر بن سکتا ہے۔

 

ایک جگہ جہاں سب کا تعلق ہو

آمنہ انصاری مزید لکھتی ہیں کہ  --- یوں تو محمد سراج کی مذہبی شناخت اہمیت نہ رکھتی  مگر ہم مثالی دنیا میں نہیں رہتے۔کرکٹ کوہندوستان کا غیر سرکاری مذہب کہا جاتا ہے، جہاں اکثر عقائد کے فرق مٹ جاتے ہیں اور قومی فخر غالب آ جاتا ہے۔ عام طور پر، چاہے کھلاڑی رام کو پکارے، اللہ کو، گرو نانک کو یا یسوع کو، اُن کی صلاحیت کو ہر طرف سراہا گیا ہے۔ سراج بھی مختلف پس منظر رکھنے والے مداحوں کے ہیرو ہیں۔مگر سوشل میڈیا کے دور میں کناروں کی آواز بھی دور تک سنائی دیتی ہے۔ سراج کو صرف جیت کے بعد "اللہ کا شکر" ادا کرنے یا عمرہ کی تصویر پوسٹ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود، ان کی کامیابی اس خاموش اکثریت کی یاد دہانی ہے جو اب بھی کھلاڑی کے کھیل کو اُس کی ذاتی شناخت سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔

ہیرو اور بڑی حقیقتیں

 وہ اپنے مضمون میں کہتی ہیں کہ --- سراج کی کہانی ایک مضبوط پیغام دیتی ہے، جب ہنرمند لوگوں کو موقع ملتا ہے، وہ کسی بھی پس منظر سے ہوں، غیر معمولی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے واقعات کمیونٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کی کامیابی سے پوری کمیونٹی کی حالت آسانی سے نہیں بدلتی۔ حقیقی تبدیلی کے لیے سوچ میں انقلاب، وسائل تک برابر رسائی، مؤثر پالیسیاں اور پائیدار سماجی پروگرام ضروری ہیں۔ہیرو ہونا اچھا ہے، مگر اصل خوشی تب ہو گی جب روزمرہ زندگی میں بھی تبدیلی آئے۔