کائبرا الطاف :کشمیر میں جوڈو کے جنون کا نام ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
کائبرا الطاف
کائبرا الطاف

 

 

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

 موجودہ زمانہ میں خواتین ہر میدان میں اپنے فن کا جوہر دکھا رہی ہیں، اِس لیے اب یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ  اکیسویں صدی نے خواتین کو اپنے فن اور اپنی مہارت کو دنیا کےسامنے پیش کرنے کا مزید مواقع فراہم کیا ہے۔

 ایسا ہی ایک کارنامہ انجام دینے والی خاتون'کائبرہ الطاف' ہیں، جن کا تعلق جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ہے۔انھوں نے جوڈو(Juddo) میں اپنے فن کا جوہر دکھا کر نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے علاقے اور اپنے شہر کا بھی نام روشن کیا ہے۔بائیس برس کی کائبرہ الطاف پیدائش 1999 میں ہوئی ہے۔ وہ سری نگر کے علاقے نشاط میں رہیتی ہیں۔

جب وہ صرف پانچ برس کی تھیں، تبھی سےانھوں نے کھیل میں دلچسپی لینی شروع کر دی تھی،اسی زمانے میں انھوں نے پہلی مرتبہ سری نگر کہ زبرواں پہاڑی پر چڑھائی کی تھی- یہ کھیل کی دُنیا میں ان کا  گویا پہلا قدم تھا۔

اس کے بعد اُنھوں نے کھیل کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔اس سلسلے میں ان کے والد ہمیشہ ان کی ہمت افزائی کرتے رہے۔خیال رہے کہ ان کے والد بھی خود مارشل آرٹ کے ماہرکھلاڑی ہیں۔کائبرہ الطاف کا کہنا ہے کہ والد محترم کی کھیل کے تعلق سے رہنمائی میرے لیے بہت کارگر ثابت ہوئی۔ وہ ہمشیہ کھیل کے مثبت پہلووں پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کائبرا الطاف  "اسپورٹس مین شپ"(sportsmanship) کی قوت کو سمجھنے لگیں۔ حالاں کہ یہ سب اس وقت سے ہی شروع ہوگیا تھا جب کہ ابھی انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کھیل کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔بالآخر ایسا ہوا کہ کائبرہ الطاف اپنے اسکول میں ہونے والی کھیلوں کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں۔

یہاں اُنھیں کوہ پیمائی(mountaineering) اور اسکینگ(skiing) اور جوڈو(juddo) سے متعارف کرایا گیا۔  کائبرہ جوڈو میں دنیا میں باضابطہ داخل ہونے سے قبل ایک بہترین کھلاڑی بن چکی تھیں۔انھوں نے اپنا سفر ایک اسکیئر(ace skier) کے طور پر شروع کیا۔

کائبرہ الطاف کہتی ہیں کہ میں نے 2009 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکینگ اینڈ ماؤنٹینیئرنگ (Indian Institute of Skiing and Mountaineering) سے کورس مکمل کیا تھا۔

کائبرہ نے اسکینگ میں بہت سے ایوارڈ جیتے ہیں جن میں قومی اسکینگ مقابلے میں دو سلور میڈل، گنڈولا کپ میڈل(Gondola Cup medal) اور مختلف ریاستی ایوارڈز کے علاوہ اوپن گلمرگ کپ کا میڈل بھی شامل ہے۔

یہاں تک کہ انہیں بین الاقوامی اسکینگ چیمپئن شپ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، مگر وہ کچھ وجوہات کی بنا پراس میں شرکت نہ کرسکیں۔

اس سے انہیں زبردست دھچکا لگا۔

اس کے کچھ عرصے بعد کائبرہ نے جوڈو میں دلچسپی لینی شروع کر دی، کیوں کہ شروع کے دنوں میں ان کے والد نے اسے جوڈو کی بہت سی تکنیک سکھائی تھیں۔کائبرہ کے بقول یہ 2011 کی بات ہے جب میں نے بالآخر پیشہ ورانہ طور پر جوڈو میں جانے کا انتخاب کیا۔وہ اپنے والد کے ساتھ انڈور اسٹیڈیم گئیں اور جوڈو کے فن کو سیکھنا شروع کر دیا، یہاں انہیں شفقت شفیع نے ٹرینینگ دینی شروع کی۔

اس کے علاوہ ان کےوالد بھی انھیں جزوقتی ٹرینینگ دیتے رہے۔اب انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ انہیں جوڈوہی کو پیشہ ورانہ طور اپنانا ہے اور پھر کائبرہ نے دوبارہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔تین ماہ تک جوڈو کی ٹرینینگ لینے کے بعد وہ قومی سطح پر جوڈو مقابلے کے لیے منتخب ہو چکی تھیں۔

انھیں بھوپال اکیڈمی سے تربیت کی پیشکش کی گئی اور وہاں سے اُنھوں نے میڈل بھی جیتا۔ان کی محنت اور ان کا جذبہ انھیں پٹیالہ میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپورٹس (National Institute of Sports) تک لے گیا۔وہ کہتی ہیں کہ میں خوش قسمت تھی کہ مجھے این آئی ایس(NIS) میں ڈھائی سال تک جوڈو کی مشق کرنے کا موقع ملا۔ تاہم بدقسمتی سے ایک دن اپنی پریکٹس کے دوران مجھے گھٹنے کی چوٹ لگی۔

یہ چوٹ اتنی سخت تھی کہ ان کے گھٹنے کا آپریشن کرنا پڑا۔ سرجری کی وجہ سےآئندہ 18مہینوں تک انھیں مسلسل بستر پر رہنا پڑا۔کائبرہ ایک باہمت لڑکی تھی، وہ اپنے چوٹ کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے کھیل کے بارے میں سوچتی رہتی تھیں اور پریشان ہو جاتی تھی۔وہ سوچتی تھیں کہ کیا وہ دوبارہ جوڈو کی پریکٹس کر پائے گی۔

کائبرہ اس تعلق سے کہتی ہیں کہ منفی خیالات میرے ذہن پر قابض ہوتے تھے۔ لیکن میں اپنے مفنی خیالات کو جھٹک دیا کرتی تھی اورپھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان چیلنجوں پر قابو پالوں گی اور دوبارہ جوڈو میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دنیا کو دکھاوں گی۔سنہ 2017 میں کائبرہ نے دوبارہ جوڈو کی پریکٹس شروع کی اور مختلف مقابلوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔

awazurdu

اسی برس اُنھوں نے نئی دہلی میں 62 ویں قومی اسکول گیمز( School Games Federation of India) میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔

اسکول گیمز فیڈریشن آف انڈیا میں شرکت کرکے گولڈ میڈل جیتنا ان کے لیے ایسا ہی تھا کہ جیسے انھیں چھُپا ہوا خزانہ دوبارہ مل گیا ہو۔

اس کے بعد انھوں نے قومی سطح پر ہونے مزید تین چار مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔

 انھوں نے این آئی ایس( پٹیالہ) سے جوڈو میں آٹھ ہفتوں کا سرٹی فکیٹ کورس بھی کیا ہے۔

اس کے بعد انُھیں بنگلور میں انسپائر انسٹی ٹیوٹ آف اسپورٹس( Inspire Institute of Sports ) کے لیے منتخب کیا گیا، جہاں وہ ڈیڑھ سال تک رہیں اور یہاں بھی انھوں نے ایک قومی سطح کے مقابلے کے دوران گولڈ میڈل جیتا۔

کائبرہ کا کہنا ہے کہ وہ جہاں بھی گئیں وہ صرف کشمیر کی نمائندگی کرتی رہیں۔اس کے علاوہ وہ 63 ویں ویٹ کیٹیگری میں میڈل جیتا اور جموں و کشمیر کے لیے بہت سے اعزازات حاصل کیے۔ تاہم جب انھوں نے 78 ویں ویٹ کیٹیگری میں کانسے کا تمغہ جیتا تو اس سے انہیں اتنی خوشی نہیں ہوئی۔

awazurdu

کھیلو انڈیا(Khelo India ) کا دو بار حصہ بننے اور میڈل جیتنے سے لے کر اوپن کامن ویلتھ گیمز( Open Commonwealth Games) کے ٹرائلز کے لیے منتخب ہونے تک، کائبرہ نے ہر جگہ اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔

واضح ہو کہ 2020 میں ہونے والے اوپن کامن ویلتھ چیمپئن شپ کے ٹرائلز کے لیے جن چار کھلاڑیوں کو قومی سطح پر منتخب کیا گیا تھا، ان میں وہ بھی ایک تھیں۔

کھیلو انڈیا میں کائبرہ کو اسپائس جیٹ نے اسپانسر کیا تھا۔ جہاں انھوں نے اسپائس جیٹ سے پیسے لینے کے بجائے ایتھلیٹ کے لیے میٹ فراہم کرنے کو کہا تاکہ وہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو اس میدان میں ٹرینینگ دے سکیں۔

انھیں اسپائس جیٹ کی طرف بڑی تعداد میں میٹس(mats) فراہم کئے گئے ، جس پر وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو انڈور اسٹیڈیم میں ٹرینینگ دیتی ہیں۔

کائبرہ خود کو خوش قسمت کہتی ہے کیونکہ انھیں بہترین انسٹریکٹر نے تربیت دی ہے۔

 انھوں نے کہا کہ میں نے سری نگر میں اپنے کوچ شفقت شفیع کی رہنمائی میں جوڈو کی تربیت کا آغاز کیا۔ اس کے بعد مجھے ہندوستان کے بہترین کوچوں میں سے ایک جیون شرما کے تحت پریکٹس کرنے کا موقع ملا اور انسپائر اکیڈمی، بنگلور میں جارجیا کے کوچ مموکا کیزیلاشویلی(Mamuka Kizilashvili) نے مجھے تربیت دی۔

اب کائبرہ جوڈو میں جموں و کشمیر کی سب سے اَچھی اور سب سے کم عمر کھلاڑی بن چکی ہیں۔

خیال رہے کہ ابھی کائبرہ الطاف کا تعلیمی سلسلہ جاری ہے، وہ کشمیر یونیورسٹی میں فی الوقت ہیومینٹیز(Humanities) کی طالبہ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں اِس کے لیے خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے ہمیشہ بہترین کوچ ملے، جس کی وجہ سے آج میں یہاں تک پہنچی ہوں۔