عیسیٰ فاطمہ: بھوکے اور بے سہارا لوگوں کی مسیحا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-05-2022
عیسیٰ فاطمہ: بھوکے اور بے سہارا لوگوں کی مسیحا
عیسیٰ فاطمہ: بھوکے اور بے سہارا لوگوں کی مسیحا

 



 

شاہ عمران حسن:  نئی دہلی

 ہمارے ملک ہندوستان کے اندر غیرسرکاری سطح پر لوگ طرح طرح کے کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کوئی تعلیم کے میدان میں پہل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کوئی لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہوا، وہیں کچھ لوگ غریب اور بے سہارا لوگوں کے علاج کے لیے مفت نرسنگ ہوم چلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کوئی مفت کھانا فراہم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عیسی فاطمہ جاسمین بھی ان سماجی کارکنان میں سے ایک ہیں،جو روزانہ کی بناد پرہزاروں غریب اور بے سہارا لوگوں کو کھانا فراہم کراتی ہیں۔

ریاست تمل ناڈو کے دارالحکموت چنئی سے تعلق رکھنے والی عیسیٰ فاطمہ جاسمین اگرچہ پیشے کے اعتبار سے آرتھوڈنٹسٹ ہیں، تاہم وہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔ وہ غریب اور بے سہارا لوگوں کو کھانا پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

عیسیٰ فاطمہ نے غریب لوگوں کی مدد کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم 'دی پبلک فاؤنڈیشن' قائم کیا ہے۔ اس کے تحت انہوں نےایک کمیونٹی فرج بھی لگایا ہے۔ اس کمیونٹی فرج کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔

خیال رہے کہ عیسیٰ فاطمہ نے تقریباً 15 کمیونٹی فریجز قائم کیے ہیں جو چنئی، ویلور اور بنگلور میں واقع ہیں۔ مقامی افراد کمیونٹیز فرج میں روزانہ کھانا رکھتے ہیں، وہ گھروں یا ہوٹلوں سے لاکر یہاں کھانا جمع کرتے ہیں۔  فاطمہ عیسی نے سنہ 2015 میں یہ کام بہت چھوٹے طور پر کام شروع کیا تھا۔ جب وہ ایک مقامی خاتون کو روزانہ کھانا دیا کرتی تھیں،وہ ضعیف خاتون ان کے اپارٹمنٹ کے قریب ایک پل کے نیچے رہا کرتی تھی۔جب وہ خاتون زندہ رہیں، ان تک عیسی فاطمہ کھانا پہنچاتی رہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد میں کسی اور کی تلاش میں تھی کہ تاکہ انہیں ایک وقت کا کھانا دیا کروں۔ کیونکہ اس سے مجھے اندرونی سکون ملتا ہے۔عیسیٰ فاطمہ کی عمر39 ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ملک میں لاتعداد لوگ رات کو بھوکے سو جاتے ہیں۔ جب میں کھانے کے بارے میں تحقیق کررہی تو مجھ کو پتہ چلا کہ برطانیہ ، جرمنی اور دیگر ممالک میں'کمیونٹی فریجز'کےنام سے لوگوں کی ضرورت کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔

اس کے بعد میں نے سوچا کہ چنئی میں بھی میں ایسا کر سکتی ہوں۔ کمیونٹی فریجز کی کامیابی اور پائیداری کا انحصار مقامی کمیونٹیز کی شرکت پر منحصر ہے۔ عیسیٰ فاطمہ نے یہ بھی محسوس کیا کہ کمیونٹی فریج صرف ان جگہوں پر لگائے جاسکتے ہیں جہاں ضرورت مند افراد اور کھانے کے عطیہ دہندگان دونوں دستیاب ہوں۔

چنانچہ سنہ 2017 میں انہوں نے اپنے ساتھ چینئی کے بیسنت نگر میں ٹینس کورٹ کے قریب پہلا کمیونٹی فریج قائم کیا۔ یہ کام انہوں نے ذاتی طور پر شروع کیا۔ ابتداً انہوں نے اس میں تقریبا ایک لاکھ 25 ہزار روپئے لگائے۔ اس کے بعد انہوں نے مقامی لوگوں کو ذاتی طور پر لگائے گئے کمیونٹی فریج اور اس کے پروجیکٹ کے بارے میں بتانا شروع کیا اور انہوں نے لوگوں سے تعاون کی اپیل کی کہ وہ کمیونٹی فرج میںاپنا بھی حصہ ادا کریں۔

awazthevoice

عیسی فاطمہ کھانے کا پیکٹ تقسیم کرتی ہوئی

عیسی فاطمہ کہتی ہیں کہ میں نے لوگوں کو بتایا کہ کمیونٹی فریج بھوکے افراد کو کھانا کس طرح فراہم کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد علاقے کے لوگوں نے ان کی مدد کرنی شروع کردی، اور اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاکر فریج میں رکھنے لگے۔ ابتداً زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کا زائد کھانا یا بچا ہوا کھانا لاکر کمیونٹی فریج رکھتے تھے۔ اس کے بعد لوگ ہوٹلوں سے پیک کرکے کھانا لاکر فریج میں رکھنے لگے۔عیسیٰ فاطمہ نے ابتداً تنہا یہ کام شروع کیا تھا، اب ان کا کام ٹیم کی شکل میں اختیار کر چکا ہے۔

فی الوقت ان کی ٹیم میں10 رضاکار جڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی ضرورت ہوتی ہے وہ آتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔ ان کمیونٹی فریجر کی گنجائش 400 سے 600 لیٹر تک ہوتی ہے۔عیسیٰ فاطمہ کہتی ہیں کہ ایک فریج کو انسٹال کرنے کے لیے تقریباً 1 لاکھ سے 2.5 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، یہ فریج کے سائز اورمنتخب کردہ مقام پر منحصر ہے۔

اس فریج سے روزانہ اوسطاً 70 سے 100 لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ عیسیٰ فاطمہ کی پہل سے روزانہ تقریباً 1000 لوگوں کو ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔ ان کی ٹیم نے جہاں جہاں کمیونٹی فریج لگایا ہے، وہاں وہ بذات جاتی ہیں اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔ وہ ہنگرزونز(Hunger Zones) میں فریج لگانے کو ترجیح دیتی ہیں، جہاں بے گھر، مزدور اور بھکاری وغیرہ رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے چنئی میں ایامیٹوان (Ayyamittu Unn) نامی ادارہ بھی قائم کیا ہے۔ یہ تمل زبان کا جملہ ہے، جس کا مطلب ہے 'کھانے سے پہلے، ضرورت مندوں کے ساتھ کھانا بانٹنا'۔ وہ چنئی، ویلور اور بنگلورو کے آس پاس کے دیہاتوں میں کام کرتی ہیں، جہاں ان کی ٹیم ضرورت مند خاندانوں اور اسکول کے بچوں میں گروسری، کپڑے اور اسٹیشنری وغرہ تقسیم کرتی ہیں۔اب تک عیسی فاطمہ نے تقریباً87 ٹن کپڑے، 2,674 کلو کتابیں، 2,819 جوڑے جوتے اور 2,531 کلو کھلونے تقسیم کیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم قدرتی آفات کے دوران بھی کام کرتے ہیں اور متاثرہ لوگوں تک امدادی سامان پہنچاتے ہیں۔

awazthevoice

کمیونٹی فریج اور عیسی فاطمہ

انہوں نے مزید بتایا کہ لوگ نہ صرف ان کے کام کی تعریف کر رہے ہیں بلکہ وہ فنڈز بھی فراہم کر رہے ہیں اور رضاکارانہ طور پر ان کے ساتھ کام بھی کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ عیسیٰ فاطمہ بارہویں جماعت ایس بی او اے اسکول اینڈ جونیئر کالج، انا نگر سے پاس کیا اور پھر سری رام چندر انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، چنئی سے بیچلر آف ڈینٹل سرجری کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے کچھ وقت شہر کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پربھی کام کیا۔ اب وہ ایک کارپوریٹ ڈینٹل چین میں بطور کنسلٹنٹ آرتھوڈنٹسٹ کام کرتی ہیں اور دوپہر کو کلینک جاتی ہیں۔ جب کہ وہ صبح کا وقت سماجی کاموں میں لگاتی ہیں۔

جب عیسی فاطمہ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ دونوں کام کس طرح سنبھالتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ جب آپ اپنے دونوں کام کی بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں تو یہ بہت آسان ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی، میں پورے ہفتے پہلے سے منصوبہ بنا لیتی ہوں۔اس کے علاوہ میں پہلے پروفیسر بھی رپ چکی ہوں، میں پڑھاتی بھی تھی، لیکن اب میں صرف اپنی پریکٹس اور سماجی کام پر توجہ دے رہی ہوں۔ مجھے دونوں کام کو سنبھالنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وہیں عیسیٰ فاطمہ ایک فٹنس فریک(fitness freak) بھی ہیں۔ وہ صبح سویرے اٹھتی ہیں اور ناشتہ کرنے سے پہلے پابندی سے ورزش کرتی ہیں۔

عیسی فاطمہ کو کتابیں پڑھنا بھی پسند ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب  ضرور رکھتی ہوں اور جب بھی مجھے وقت ملتا ہے کتاب کا مطالعہ کرتی ہوں۔ ان کی پسندیدہ کتابوں سے ایک کتاب کیرول ڈویک(Carol Dweck) کی 'مائنڈ سیٹ: کامیابی کی نئی نفسیات'(‘Mindset: The New Psychology of Success) ہے۔