میں بالی ووڈ میں کشمیری تہذیب کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں ۔ عماد منٹو

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-12-2025
میں بالی ووڈ میں کشمیری تہذیب کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں ۔ عماد منٹو
میں بالی ووڈ میں کشمیری تہذیب کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں ۔ عماد منٹو

 



سری نگر ۔ آواز دی وائس 

 میں چاہتا ہوں کہ جب  کوئی کشمیری  بالی ووڈ کا رخ کرے تو  وہ کشمیر ی  ثقافت کو نمایاں کرے۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے خطہ کو نمایاں کرتا ہے ،مگر ابتک جو کشمیری بالی ووڈ میں ہیں وہ  ایسا نہیں کرسکے ۔ یہی ایک مسئلہ ہے کہ کشمیریوں کا۔ جب وہ باہر جاتے ہیں تو اپنی پہچان بھول جاتے ہیں۔

یہ الفاظ ہیں  کشمیر کے کشتواڑ کے پہاڑوں سے  بالی ووڈ کا رخ کرنے والے عماد منٹو کے ۔جو اب بالی ووڈ میں ایک اور کشمیری چہرہ بن رہے ہیں ۔ان کی کہانی جذبے اور خوابوں کے سچے ہونے کی ہے۔ 19 سال کی عمر میں ماڈل کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عماد نے جلد ہی ٹی وی سیریلز اور ریئلٹی شوز میں خود کو منوایا۔ اب وہ بالی ووڈ کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ابتک جو کشمیری ہیں انہوں نے خود کو کشمیری تہذیب سے دور کرکے پیش کیا ہے ،خود میرے دوست علی بھی کشمیر کی نمائندگی نہیں کرسکا ہے ۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اپنی تہذیب اور ثقافت کو پیش کریں ۔

ماں کا شوق اور ساتھ

وہ کہتے ہیں کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو میری ماں مجھے ہر چیز سکھاتی تھیں۔ انہیں اداکارہ بننا تھا لیکن گھر والوں نے اجازت نہیں دی۔ وہ بہت ڈانس کرتی تھیں۔ شادیوں میں ہر جگہ ڈانس کرتی تھیں ۔ وہ مجھے بھی کہتی تھیں کہ اٹھو ڈانس کرو۔ میں بہت خوش ہوتا تھا۔ میں ہر جگہ ڈانس کرتا تھا۔ میں ایک ڈانسر ہوں۔مجھے فلموں کا بہت شوق تھا۔ جب میں اسکول سے واپس آتا تھا تو میں وی سی آر پر فلمیں دیکھتا تھا۔ میں روز ایک ہی فلم بار بار دیکھتا تھا۔ اسی سے میرا شوق بڑھتا گیا۔ میں آئینے میں خود سے باتیں کرتا تھا۔ میں ایک پاگل فلمی لڑکا تھا۔ مجھے فلموں کی دنیا کے بارے میں بہت علم تھا کیونکہ میری ماں فلمی میگزین لاتی تھیں اور پڑھتی تھیں۔ وہ مجھے بتاتی تھیں کہ کون کس کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ کون سی فلم کس سال آئی ہے۔ مجھے سب یاد ہوتا تھا۔ اگر آپ پوچھیں یہ فلم کس سال آئی ہے تو میں ایک سیکنڈ میں بتا دوں گا۔

جب مجھے پردے پر نمودار ہونے کا شوق ہوا تو میں نے  والدہ سے سوال کیا کہ میں اس میدان میں  آگے کیسے بڑھوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک پورٹ فولیو بناؤ۔ میں اس وقت صرف 16 سال کا تھا۔ پھر میں کشمیر سے جموں گیا۔ ایک دن میں  شاپنگ مال میں گھوم رہا تھا۔ وہ میرے دسویں کے امتحانات سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ وہاں ایک پوسٹر لگا تھا کہ دہلی سے ایک شخص ماڈلز ڈھونڈنے آیا ہے۔ انہوں نے شو کرانا تھا۔ میں نے گھر والوں کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے امتحانات ہیں لیکن وہ ہمیشہ سے میرا ساتھ دیتے تھے اس لیے بسمہ اللہ کا اشارہ دیا۔ اگر وہ ساتھ نہ دیتے تو میں یہاں تک نہ پہنچ پاتا۔

پہلی کامیابی 

عماد کہتے ہیں کہ میں نے اس  شو میں حصہ لیا۔ میں نے ڈانس کیا۔ سب نے بہت پسند کیا۔ میں وہ شو جیت گیا۔ اگلے دن میری تصویر اخبار میں چھپی۔ یہ میری پہلی کامیابی تھی۔ پھر لوگ مجھے جموں میں پہچاننے لگے۔ اس کے بعد بارہویں کے بعد میں دہلی آ گیا۔ میں نے ماڈلنگ شروع کی۔ بہت سے پرنٹ شوٹس کیے۔ میں فوٹو جینک تھا اس لئے مجھے بہت کام ملا۔ میں ساکیت میں رہتا تھا اور بی بی اے کر رہا تھا۔ صبح سے شام تک آڈیشن دیتا تھا۔ میں اسے جدوجہد نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے مزہ آتا تھا۔ لوگوں سے ملنا باتیں کرنا۔ ایک چھوٹے شہر کے لڑکے کیلئے یہ سب نیا تھا۔ میں نے دہلی میں ماڈلنگ اس لئے شروع کی کیونکہ میرے پاس اس وقت کافی وقت تھا۔ میں نے فیس بک کے ذریعے کچھ لوگوں سے رابطہ بنایا جنہوں نے مجھے کہا کہ آؤ ہم تمہارا پورٹ فولیو بنائیں گے اور ماڈلنگ شروع کرائیں گے۔ میں بہت کم عمر تھا لیکن خوش قسمتی سے بہت فوٹوجینک بھی تھا۔ اس وقت مجھے بہت سے پرنٹ شوٹس ملا کرتے تھے۔وہ لوگ مجھے بلاتے اور کہتے کہ یہاں آ کر شوٹ کرو۔ میں نے بہت سے پینٹ پرنٹ شوٹ کئے۔

  وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے مونٹی کارلو کیلئے بھی شوٹ کیا تھا۔ ممبئی میں بھی کام کیا۔ میں نے ٹی وی کمرشل بھی کیا تھا۔وہیں سے میں نے ماڈلنگ شروع کی۔ رمپ پر چلنا بھی شروع کر دیا۔ میں اپنے کالج کی پڑھائی بھی ساتھ ساتھ کر رہا تھا۔ میں بی بی اے کر رہا تھا۔ نوئیڈا سے پڑھ رہا تھا لیکن رہتا ساکیت میں تھا۔ میں اپنے بیگ کے ساتھ صبح نکلتا۔ ہر آڈیشن میں جاتا۔ دیکھتا کہ کہاں فٹ بیٹھتا ہوں اور آڈیشن دیتا۔مجھے اس وقت یہ سب جدوجہد نہیں لگتا تھا۔ مجھے مزہ آتا تھا۔ صبح اٹھ کر جاتا۔ نئے لوگ ملتے۔ لڑکے لڑکیاں سب بات چیت کرتے۔ ایک چھوٹے شہر کے لڑکے کیلئے یہ سب بہت دلچسپ تھا۔ لوگ اسے جدوجہد کہتے ہیں لیکن مجھے یہ ایک خوشگوار تجربہ لگتا تھا۔

عماد منٹو کہتے ہیں کہ ایک دن دہلی کے ایک شو میں میں نے ریمپ پر واک کی۔ وہاں ممبئی کا ایک بہت بڑا کاسٹ کوآرڈینیٹر آیا ہوا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ تم یہاں اپنا ٹیلنٹ ضائع کر رہے ہو۔ اس نے اگلے دن کی فلائٹ بک کی اور کہا کہ تم میرے ساتھ ممبئی چلو۔ میں ڈر گیا لیکن سب نے کہا کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ اس لئے میں چلا گیا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں ممبئی اترا۔ جیسے ہی پہنچا وہ مجھے مس انڈیا کانٹیسٹ لے گئے۔ میں نے وہاں علی ظفر اور کئی اداکار دیکھے۔ شاہد کپور سمیت بہت سے لوگ میرے سامنے تھے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں ممبئی میں ہوں اور مجھے وہاں آئے ہوئے صرف تین چار دن ہوئے تھے۔پھر مجھے بھائی پروڈکشنز کی طرف سے پیغام ملا کہ وہ مجھے فلم کیلئے بلانا چاہتے ہیں۔ میں ڈر گیا کیونکہ مجھے اداکاری نہیں آتی تھی۔ اس لئے میں نے وقت مانگا۔ اسی دوران یش راج سے بھی کال آئی۔ انہوں نے بھی مجھے رول کی پیشکش کی لیکن میں تیار نہیں تھا۔ میں بہت نیا تھا۔ مجھے پہلے ماڈلنگ کرنی تھی۔

 وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے بہت سے اشتہارات کئے۔ تقریباً 70 سے 80 اشتہارات میں نے ایک سال میں کئے۔ شاہ رخ خان کے ساتھ۔ رنبیر کپور کے ساتھ۔ کرینہ کپور کے ساتھ۔ بہت سب کے ساتھ کام کیا ۔ پھر میں نے اپنا پہلا ٹی وی شو کیا۔ پھر اس کے بعد سپلٹ ولا کیا۔ پھر ایک ٹی وی سیریل میں لیڈ رول کیا۔ پھر سونی ٹی وی کے لئے تاریخی ڈرامہ کیا جس میں میں نے سکندر کا نیگیٹو رول کیا۔ یہ بہت بڑا اور مہنگا شو تھا۔ماڈلنگ شروع کرنے سے پہلے ایک فلم آئی تھی کیلنڈر گرلز جس میں انڈسٹری کا ڈارک سائیڈ دکھایا تھا۔ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔  آج کل لڑکیوں سے زیادہ لڑکے غیر محفوظ ہیں۔ آج کل کوئی محفوظ نہیں ہے۔