حکیمہ بانو۔ میدان صحافت میں لداخ کی روشنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2021
لداخ کی شان  بنی حکیمہ بانو
لداخ کی شان بنی حکیمہ بانو

 

فیروز احمد/ لداخ

لداخ میں نکلی صحافت کی نئی کرن ۔ جمہوری نظام کے چوتھے ستون کی نئی امید۔ صحافت کے میدان میں لمبی دوڑ کی دعویدار۔جس کا نام ہے حکیمہ بانو۔جس نے نے صحافت میں لداخ کی پہلی گولڈ میڈلسٹ خاتون ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔لداخ کی نئی نسل کےلئے ایک نئی مثال بن کر ابھری ہیں حکیمہ بانو۔جن کا تعلق بنیادی طور پر گرام تھھنگ منجی سے ہے- وہ بچپن سے ہی اپنے کنبے کے ساتھ چنچک کارگل میں رہ رہی ہیں- -حکیمہ نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل اسکول کارگل سے حاصل کی-اس کے بعد وہ گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کارگل میں اعلی تعلیم کے لئے گئیں اور گورنمنٹ ڈگری کالج کارگل سے گریجویشن مکمل کی۔حکیمہ نے آواز دی وائس سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے اگنو سے انگلش میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر سے کنورجینٹ جرنلزم میں ماسٹر کا کورس بھی مکمل کیا ہوا ہے۔ وہ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی کارگل لداخ سے صحافت کی پہلی خاتون طالب علم ہیں- اس نے ماس کمیونیکشن اور صحافت میں اہلیت کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔

حکیمہ ایک نہایت پرجوش رضاکار اور سماجی کارکن ہیں - وہ کارگیل میں نہرو یووا کیندرمیں نیشنل یوتھ رضاکار کی حیثیت سے کام کرتی ہیں اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں  کی رکن بھی ہیں اوررضاکارانہ طور پر بلڈ ڈونر بھی ہیں۔ وہ 5 جون 2014 سے آل انڈیا ریڈیو کارگل میں بطور کمپیراپنے فرائض بھی انجام دے رہی ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو کارگل ۔میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد انہیں میڈیا کے شعبے میں اپنی دلچسپی کا احساس ہوا۔

ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کسی بھی شعبے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنا خود میں ایک بہت احساس ہے۔ حکیمہ نے کہا کہ وہ کبھی بھی کیریئر کے حوالے سے معاشرے میں مروجہ رجحان جیسے ایم بی بی ایس ، انجینئرنگ وغیرہ کی کبھی بھی قائل نہیں رہیں- وہ ہمیشہ کچھ مختلف کرنا اور اپنے شغف پر عمل پیرا ہونا چاہتی تھیں۔ ان کا موقف ہے کہ کبھی بھی کسی کو بھیڑ کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے شغف پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں صحافت اور سوشل ورک دونوں میں دلچسپی تھی۔

انہوں نے دونوں مضامین کے لئے داخلہ کا امتحان دیا اور دونوں میں منتخب ہوگئیں - چونکہ اس میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنا تھا اسلئے وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ چلی گئیں ۔ وہ کارگل سے تعلق رکھنے والی واحد متحرک خاتون یوٹیوبرہیں جس کے تقریبا دس ہزار سبسکرائبرز ہیں۔ انہیں معاشرے کے متعدد افراد کی جانب سے سوشل نیٹ ورکس سائٹس پر بہت سے منفی تبصروں کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

لیکن پھر بھی انھیں ان منفی تبصروں کو نظرانداز کرنے اور یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اپنے تاثرات کی تشہیر کی ہمت ہے۔ وہ مختلف قسم کی ورکشاپوں / پروگراموں میں حصہ لینا اور نئے لوگوں سے خاص طور پر مختلف شعبوں کے ماہرین / پیشہ ور افراد سے ملنا پسند کرتی ہیں کیونکہ جب بھی وہ کسی نئی شخصیات سے ملتی ہیں اور ورکشاپس میں شرکت کرتی ہے تو کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے ۔ وہ اسکول کے پروگراموں میں اور خاص طور پر کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔

وہ ٹیبل ٹینس ، بیڈ منٹن اور تیر اندازی کی اچھی کھلاڑی ہیں ۔ وہ اسکولوں میں بچپن سے ہی ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت سرگرم تھیں۔ وہ اپنے اسکول کے دنوں میں مانیٹر / کلاس نمائندہ ہوا کرتی تھی۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ شروعات میں وہ پڑھائی میں بہت کمزور تھیں ۔ اس وقت سرکاری اسکولوں میں آج جیسی سہولیات اور تدریسی اساتذہ نہیں ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی کھیلوں اور دیگر سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی بچی ہے جو تعلیم کے لئے ضلع سے باہر گیئں ۔

وہ یونیورسٹی میں اپنی کلاس کی واحد لداخی طالبہ تھیں۔ حکیمہ کہتی ہیں کہ کشمیری طلباء کا مجھ سے اچھا تعلیمی پس منظر تھا۔ کچھ طلباء صحافت کے میدان سے بھی تھے۔ لیکن میرے نزدیک یہ مضمون بہت نیا تھا۔ اور میرے تمام ہم جماعتیوں کو انگریزی زبان پر اچھی دسترس تھی اور ہمارے کلاسز کے تمام لیکچرز اور ہمارے شعبہ کے فیکلٹی ممبروں کے ساتھ بات چیت انگریزی زبان میں ہی ہوا کرتی تھی۔ میری انگرریزی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی میں احساس کمتری کا شکار بھی ہو جایا کرتی تھی ۔ لیکن الحمداللہ وقت کے ساتھ میں نے تمام رکاوٹوں پر قابو پالیا اور اب میں بیچ کے تمام طلبہ میں ٹاپر ہوں۔

اپنی دلچسپی اور مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میڈیا کے دیگر شعبوں کی بجائے ان کی اکیڈمکس پر اچھی گرفت ہے اور انہیں لداخ یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن سیکشن کے ساتھ اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کی امید کی ہے ۔ طلباء کو ایک بہتر پلیٹ فارم مہیا کرنے کےلئے مختلف نوعیت کے موضوعات کا مجموعہ ہونا چاہئے جس میں +2 سطح اور کالج میں جرنلزم / ماس کمیونیکیشن شامل ہوں کیونکہ طلبہ اس طرح کی سہولت کے فقدان کی وجہ سے اپنی پسند کا مضمون منتخب نہیں کر پاتے۔حکیمہ بانو نے انتظامیہ سے ہائر سیکنڈری اور کالج کی سطح پر ماس کمیونیکیشن اور صحافت کے مضامین سمیت کچھ نئے مضامین متعارف کروانے کی درخواست کی۔ ایل جی لداخ آر کے ماتھر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے حکیمہ بانو کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ صحافت کے اعلی معیارات طے کرتے ہوئےحکیمہ بانو صحافت میں طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی خاتون بن گئیں ہیں اورمیں ان کے روشن مستقبل کی تمنا کرتا ہوں۔