گلفام احمد:جنھوں نے معذوری کے باوجودملک کا نام بلندکیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-09-2021
گلفام احمد:جنھوں نے معذوری کے باوجودملک کا نام بلندکیا
گلفام احمد:جنھوں نے معذوری کے باوجودملک کا نام بلندکیا

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ان دنوں بہت سے ہندوستانی کھلاڑی عالمی کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں اور ملک کے لئے میڈل جیت رہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں پر انعامات کی بارش بھی ہورہی ہے مگر گلفام احمد کو کبھی نہیں بھلایاجاسکتا جنھوں نے ایک رکارڈ بنایااور چند سال قبل تک وہ لگاتار جیت حاصل کرتے رہے۔وہ دو درجن سےمیڈل جیت کر ایک رکارڈبناچکے ہیں۔

گلفام احمداگرچہ جسمانی طور پر معذور ہیں مگر وہ بہت سے تندرست افرادسے زیادہ متحرک وفعال ہیں۔انھوں نے ہندوستان کا نام دنیابھرمیں روشن کیا ہے۔ وہ ایک فٹنس کے شوقین ، باڈی بلڈر ، ایک اسپیکر اوراسٹینڈ اپ کامیڈین ہیں۔گلفام احمد کو ماڈلنگ میں بھی دلچسپی رہی ہے۔انھوں نے ایک مقابلے میں حصہ لیا اور ’’مسٹر وہیل چیئر انڈیا 2015‘‘ کا تاج ان کے سرپر سجا۔

اپنی قوت ارادی اور کھیلوں سے محبت کو دیکھتے ہوئے گلفام احمد نے محسوس کیا کہ وہ وہیل چیئر ریسنگ کے زمرے میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے دہلی میں منعقدہ میراتھن میں حصہ لیا اور اچھی ٹائمنگ کے ساتھ دوڑ مکمل کیا۔ گلفام احمد آج بھی سوشل میڈیاپرفعال رہتے ہیں اوراپنے فالوورز کو فٹنس اور گرومنگ کے لئے مشورے دیتے رہتے ہیں۔

awaz

ابتدائی زندگی اور جدوجہد

گلفام احمد اتر پردیش کے بجنور میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد درزی تھے۔ وہ بمشکل ایک سال کے تھا کہ پولیو نے ان پر حملہ کیا۔ طبی سہولیات تک مناسب رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں ، ان کا خاندان ہجرت کر گیا اور بعد میں دہلی میں آباد ہو گیا۔ پولیوکے سبب گلفام احمد کی زندگی مشکل تھی اور بچپن سے وہیل چیئر ان کی زندگی کا حصہ بن گیاتھا۔ ان کی اسکولی تعلیم بھی متاثرہوئی کیونکہ اسکول میں معذور بچوں کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔

ان کے والدین بھی انھیں اسکول بھیجنے سے گریزاں تھے کیونکہ اسکول، وہیل چیئر سے جڑے طلبہ کے لیے قابل رسائی نہیں تھے۔ چنانچہ گلفام احمد اپنے گھر کے قریب واقع اسکول کے سامنے رینگتے ہوئے پہنچ جاتے اور اس کے زینوں پر بیٹھ کر دوسرے بچوں کو پڑھتے اور کھیلتے ہوئے دیکھتے۔

انھیں اسکول کے پرنسپل نے اس حال میں دیکھا تو اسکول میں داخلہ لینے کو کہااور اس طرح آٹھ سال کی عمر میں ان کی تعلیم کا آغازہوگیا۔ گلفام احمدنے اپنی ہائرسکنڈری تعلیم ایک سرکاری اسکول سے مکمل کی اور کمپیوٹر آپریشنز میں آئی ٹی آئی ایل کا کورس کیا۔

 

جسمانی معذوری کے باوجود

اچھی جسمانی بناوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے اپنی نوعمری کے دوران جم میں ورزش کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد انہیں اپنے جم انسٹرکٹر کی طرف سے خاص طور پر معذور افراد کے لیے کھیلوں کی دنیا سے متعارف کرایا گیا اور انھوں نے پہلی قومی چیمپئن شپ 2008 میں جیت لی۔ گلفام احمدنے اس کے بعد پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔وہ ایک متحرک اور فعال کھلاڑی رہے۔ انہوں نے مختلف کھیلوں کے زمرے میں اب تک 26 تمغے جیتے ہیں جیسے پاور لفٹنگ ، وہیل چیئر ریس ، تائیکوانڈو وغیرہ جو قومی اور ریاستی سطح کی چیمپئن شپ تھیں۔

وہ دوسرے معذور افراد کی بھی مدد کرتے ہیں۔انھیں مشورے اور تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ کھیلوں میں بھی مہارت حاصل کر سکیں۔ وہ اکثر معذور افراد کے لیے 'اسکوٹرس' کا بھی انتظام کرتے ہیں تاکہ انھیں کہیں آنے جانے میں سہولت ہوجائے۔ 23 سال کی عمر تک ،گلفام احمدفرش پر بیٹھ کرگھسٹتے تھے۔ بالآخر ، دو سرجریوں اور45 دن ہسپتال میں گزارنے،نیزایک طویل جدوجہدکے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور بیساکھیوں کی مدد سے گھومنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔

لوگ ان سے تحریک پاتے ہیں

وہ ایک موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ وہ مختلف پروگراموں میں بلائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ان کی زندگی اوران کی باتوں سے تحریک پاتے ہیں۔ گلفام کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر گزاری ہے اور اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے سے کبھی نہیں ڈرے۔ وہ شوبز کا بھی حصہ بنے اور’’روبرو مسٹر انڈیا‘‘ مقابلہ میں حصہ لیا۔اس بارے میں انھوں نے بتایاکہ میں نے سوشل میڈیا پر روبرو مسٹر انڈیا مقابلہ کے بارے میں پڑھا۔ میں ہندوستان میں مردوں کے سب سے بڑے مقابلے کے طور پر اس کے ٹیگ سے واقف تھا۔ تاہم ، مجھے اس کے انتخابی عمل کے بارے میں جانکاری نہیں تھی۔ 2020 میں ، میں نے اس کے قواعد و ضوابط کے بارے میں پڑھا اور اس کے لیے درخواست دی۔ دوسرے مدمقابلوں کی طرح ، میں بھی ابتدائی سلیکشن سیکشن سے گزرا اور فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ یہ اتنا بڑا پلیٹ فارم ہے اور میں اس کا حصہ بن کر بہت خوش ہوا۔

فخرمحسوس کرتاہوں

گلفام احمدکہتے ہیں کہ میرا جذبہ اور حوصلہ مجھے نئی چیزیں آزمانے پر مجبور کرتا ہے۔ میں نے اپنی پوشیدہ صلاحیت اور کچھ نیا دریافت کیا جس پر میں فخر محسوس کر سکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ

مجھے خوشی ہے کہ لوگ مجھے اپنی تحریک کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہم کسی بھی چیز سے اور کہیں سے بھی تحریک حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے اس مقام کے سفرنے جہاں میں آج ہوں مجھے ایک پراعتماد ، مضبوط اور پرعزم فرد بنایا ہے۔ آپ کو اپنے ارد گرد ہونے والی چیزوں اور آپ کے راستے میں آنے والے مواقع کے بارے میں آگاہ اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔

زندگی باربارنہیں ملتی

اس سوال پر کہ ہندوستان میں نوجوان اکثر لڑائی کے بغیر ہار مان لیتے ہیں۔ آپ کو ان سے کیا کہنا ہے؟گلفام احمدکہتے ہیں کہ

زندگی کا طویل ترین سفر بھی ایک قدم سے شروع ہوتاہے۔ آپ اپنی صلاحیت کو کبھی نہیں جان پائیں گے جب تک کہ آپ کوشش نہ کریں۔ کامیابی منزل نہیں ہے یہ ایک سفر ہے جس میں بہت سے خوبصورت سنگ میل ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں جینے کے لیے صرف ایک زندگی ملتی ہے۔ بہتر ہے کہ جو چیزیں آپ کے پاس ہیں ان پر توجہ مرکوز کریں اور ایسی چیزوں کے حصول کی طرف کام کریں بجائے اس کے کہ ان چیزوں کے بارے میں سوچیں جو آپ کے پاس نہیں ہیں۔ آج آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کی محنت کی وجہ سے ہے اور یقینا آپ کو ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی جو آپ کے پاس نہیں ہیں۔ وقت کو ضائع کرنے کے بجائے اپنے حاصل کردہ اہداف کے بارے میں سوچتے ہوئے ان کو حاصل کرنے کے لیے کام شروع کری