فٹ بال ورلڈ کپ: کب اور کیسے حقیقت میں تبدیل ہوگا ہندوستانی خواب

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-12-2022
فٹ بال ورلڈ کپ: کب اور کیسے حقیقت میں تبدیل ہوگا ہندوستانی خواب
فٹ بال ورلڈ کپ: کب اور کیسے حقیقت میں تبدیل ہوگا ہندوستانی خواب

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

سابق صدر جمہوریہ اور میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا قول تھا کہ ۔۔۔  خواب وہ نہیں جو آپ نیند میں دیکھیں بلکہ خواب وہ ہے جو آپ کو نیند نہیں آنے دے ۔۔۔

اس کا ایک نمونہ قطر ورلڈ کپ کے دوران نظر آیا جب ایک میچ میں ہندوستان کا ترنگا بھی لہراتا ہوا نظر آیا۔ یوں تو ورلڈ کپ کا آغاز سعودی عرب کے ڈنکے اور مراکش کے دھمال  کے ساتھ ہوا تھا مگرفیفا کی عالمی رینکنگ یعنی درجہ بندی میں  106ویں مقام پر کھڑے ہندوستان کا لہراتا ترنگا بھی ایک بڑے خواب کی گواہی دے رہا تھا۔ ایک ایسا خواب جسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جارہا ہے۔ جواس بات کا پیغام دے رہا تھا اگر ہم نے کلام صاحب کی بات پرعمل کیا ، اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے جذبہ کے ساتھ محنت کی تو ۔۔۔ہم ہونگے کامیاب ایک دن۔ 

 اس خواب کو دیکھنے اور جینے والا کوئی ایک نام یا چہرہ نہیں ۔مگر قطر ورلڈ کپ میں جس ہندوستانی مداح نے اس خواب کا اظہار ترنگا لہرا کر کیا اس کا نام ذبیح اللہ خان ہے ،جو قطر ورلڈ کپ میں میچ خواہ کسی کا بھی دیکھ رہے ہوں مگر ہاتھوں میں جھنڈا ہندوستان کا ہوتا ہے اور زبان پر یہ امید کہ ایک دن آئے گا جب فٹ بال ورلڈ کپ میں بھی ’انڈیا ۔۔ انڈیا ۔۔ انڈیا  کے نعرے لگ رہے ہونگے ۔

 یہ کیسے اور کب ممکن ہوگا ؟

 جب آواز دی وائس  نے اس سلسلے میں ہندوستانی فٹ بال کے ممتاز چہرے اور سابق کپتان شبیر علی سے دریافت کیا کہ کیا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے؟ تو شبیر علی کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہنا بہت مشکل ہوگا  کیونکہ یہ راتوں رات چمتکار کا معاملہ نہیں ۔ اس کے لیے بنیادی سطح پر تیاری شروع ہوتی ہے ۔طویل مدتی پلان کے تحت ایک نسل کوتیار کیا جاتا ہے جو انڈر ۔16  انڈر 21  کی سیڑھیوں کو پار کرکے پھر سینئیر ٹیم کی کمان سنبھالتی ہے۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے شبیر علی نے مزید کہا کہ بلاشبہ ملک میں پروفیشنل فٹ بال نے قدم جمائے ہیں اور اس سے بہت فرق پڑ رہا ہے مگر ابھی منزل دور ہے۔ ملک میں فٹ بال کے بڑے خواب کے لیے کام شروع ہوچکا ہے۔جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔ ہندوستانی فٹ بال نے ایشائی سطح پرواپسی کرلی ہے جو کہ ایک اچھی علامت ہے۔

 شبیر علی مانتے ہیں کہ ایک وقت ہندوستانی فٹ بال میں اکسپوزر کی کمی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ہماری ٹیمیں نہ صرف ملک میں بلکہ غیر ممالک میں بھی کھیل رہی ہیں جو کسی بھی ٹیم کے کھیل میں نکھار اور تجربہ کے لیے سب سے اہم  ہوتا ہے۔ 

بات جب ملکی اور غیر ملکی کوچ کی گئی تو شبیر علی نے بڑی صفائی کے ساتھ کہا کہ  غیر ملکی کوچ کا استعمال کوئی بری بات نہیں بشرطیکہ اس کی ساکھ ہو۔ جو نئی نسل کے فٹ بالرز کو نئی تیکنیک اور طریقوں کی باریکیوں سے واقف کراسکے ۔ 

شبیر علی نے یادوں کو کریدتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی فٹ بال میں ابتک کے سب سے کامیاب اور بڑے غیر ملکی کوچ سرک میلوون رہے ہیں جو 1985میں آئے تھے جن کا تعلق سربیا سے تھا جو اس وقت یوگوسلاویہ کا ایک حصہ تھا۔ 1984 میں ان کی آمد ہندوستانی فٹ بال کے لیے بہت اہم تھی کیونکہ بڑے بڑے ستارے ریٹائر ہورہے تھے گھریلو فٹ بال کرکٹ میں اپنی مقبولیت کھو رہا تھا۔

awazurdu

شبیر علی ۔۔۔ کل اور آج 

شبیرعلی نے مزید کہا کہ سرب کوچ نے فوری طور پر کرشنو ڈے، سدیپ چٹرجی، اتانو بھٹاچاریہ، بسواجیت بھٹی چاریہ،ڈیرک پریرا، موریسیو الفونسو، پیم دورجی، برہمانند سنکھوالکر، بیکاش پانجی اور پرمیندر سنگھ جیسے نوجوان ستاروں کے ساتھ ایک ٹیم تیار کی۔ میں بھی اس ٹیم کا حصہ تھا۔ ان کی کوچنگ میں ہندوستان نے بھلے ہی کوئی اہم کامیابی حاصل نہ کی ہو لیکن ٹاپ کلاس مخالفین کے خلاف اچھی فٹ بال کھیلی۔

اس لیے فٹ بال کے فائدے کے لیے اگر غیر ملکی کوچ ضروری ہو تو ان کی خدمات حاصل کرنی چاہیے ۔

سنہری دور  

ایسا نہیں کہ ہندوستان کا  فٹ بال کی دنیا میں کبھی کوئی اثر نہیں رہا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اپنے سنہری ماضی کو ہی واپس لانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔آج اگر ملک کا مقام درجہ بندی میں سو کے پار ہے تو کبھی یہ ٹیم جو کبھی ایشیا کی بہترین ٹیموں میں شمار کی جاتی تھی، 1950 اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں اس کا سنہری دور گزرا۔

آپ حیران ہونگے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہندوستان کی فٹ بال ٹیم نے 1956 کے ملبورن اولمپکس میں تاریخ رقم کی تھی۔ جب ہندوستانی فٹ بال ٹیم اولمپک سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی ایشیائی ٹیم بنی۔ یہی نہیں ورلڈ کپ میں بھی شرکت کے قریب پنہچ کر دور ہوگئی تھی۔

 اس عرصے کے دوران ہندوستان نے 1951 اور 1962 کے ایشیائی کھیلوں میں سونے کا تمغہ جیتا تھا جبکہ 1956 کے سمر اولمپکس میں چوتھے نمبر پر رہا تھا۔

مگر آج کہانی کچھ اور ہے۔ ہندوستان کو فٹ بال کے افق پر دوبارہ نمودار ہونے کے لیے بڑے خواب دیکھنے ہیں بلکہ اس کے لیے بہت سخت محنت کرنی ہے۔

awazurdu

اولمپکس 1948 میں ہندوستانی ٹیم

اولمپک میں ہندوستان؟

 فٹ بال ماہرین کا ماننا ہے کہ  بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ہندوستانی  فٹبال کی ٹیم بین الاقوامی سطح پر زیادہ میچ نہیں کھیلیے تھےلیکن اس کا شماراچھا کھیلنے والی ٹیموں میں ہوتا تھا۔ اس کی ایک جھلک ہندوستانی ٹیم نے 1948 کے لندن اولمپک گیمز میں بھی دکھائی تھی۔ ہندوستان فرانس جیسی مضبوط ٹیم سے محض 1-2 کے فرق سے ہار گیا تھا۔ اس وقت ہندوستانی کھلاڑی ننگے پاؤں کھیلتے تھے اور صرف چند ہی موزے پہن کر کھیلتے تھے۔ اس دور میں  احمد خان، ایس رمن، ایم اے ستار اور ایس میوال جیسے کھلاڑیوں کا ڈنکا بج رہا تھا۔

awazurdu

 

ورلڈ کپ ۔۔ ایک قدم کا فاصلہ تھا

آج اگر فٹ بال ورلڈ کپ  میں ہندوستان کی بات کریں تو لوگ اس کو ناقابل یقین مانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک بار ہندوستان ورلڈ کپ میں قسمت کے ساتھ دینے کے باوجود حالات اور اسباب کے سبب شرکت نہیں کر سکا ۔ 72 سال قبل 1950 میں برازیل میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں شرکت کا راستہ صاف تھا۔

دراصل دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے 1942 اور 1946 میں ورلڈ کپ فٹبال کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔ سنہ 1950 میں ورلڈ کپ 12 سال کے انتظار کے بعد ہونے والا تھا۔ صرف 33 ممالک نے برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

ہندوستان کو برما (میانمار) اور فلپائن کے ساتھ کوالیفائنگ گروپ 10 میں جگہ ملی۔ لیکن برما اور فلپائن نے کوالیفائنگ راؤنڈ سے اپنے نام واپس لے لیے تھے۔

تاہم ہندوستان نے کئی  وجوہات کی بناء پر ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے ہی دستبرداری اختیار کر لی تھی جو ابھی تک حل نہیں ہو سکی۔اس سلسلے میں الگ الگ دعوے کئے جاتے ہیں جن کا ذکر کرنا اب ضروری نہیں رہ گیا ہے۔

راہ کٹھن ہے مگر ناممکن نہیں 

شبیر علی کہتے ہیں کہ  ہمیں مثبت رہنا ہوگا ،محنت کرنی ہوگی اور راتوں رات عروج پانے کا خواب نہیں دیکھنا ہوگا  بلکہ اس کے لیے ایک منظم طریقہ اور پلاننگ سے کام کرنا ہوگا جیسا کہ اب ہورہا ہے۔ اس میں کامیابی کا دارومدار بنیادی  ڈھانچے کے ساتھ  فٹ بالرز کو اکسپوزر پر ہوتا ہے جو کہ اب مل رہا ہے۔

 مستقبل قریب میں ہندوستان  کا ایک امتحان 2024 ایشیا کپ ہوگا جس کے لیے ٹیم نے کوالیفائی کرلیا ہے جو اب چین کے بجائے قطر میں منعقد ہوگا۔انڈر 23 ٹورنامنٹ میں سرفہرست تین ٹیمیں پیرس اولمپکس کے لیے کوالیفائی کریں گی، جب کہ چوتھی بہترین ٹیم کا سی اے ایف سے کسی ملک کے خلاف کوالیفائی کرنے کے لیے پلے آف ہوگا