شیخ محمد یونس /حیدرآباد
تمام مذاہب انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں ۔کوئی بھی شخص بہترین مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی ہرگز نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ایک بہترین انسان نہ ہو۔ یہ تاثرات ریاست تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کے بودھن ٹاؤن کی طالبہ ہبہ فاطمہ کے ہیں جنہوں نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں بھگوت گیتا کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ہبہ فاطمہ کا عزم مصصم مثالی ہے اور ان کے عزائم کافی بلند ہیں۔ اب وہ سکھ مذہب کی کتاب گرو گرنتھ صاحب کے ترجمے میں مصروف ہیں وہ بائبل کے اردو ترجمے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔
گیتا کے اردو ترجمہ کی وجوہات
ہبہ فاطمہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا خاندان کرایہ کے مکانات میں مقیم رہا ہے اور ان کے بیشتر پڑوسی غیرمسلم ہیں۔ وہ اپنے پڑوسیوں کو پوجا کرتے دیکھتیں اور ان سے ہندوازم کے تعلق سے سوالات کر تیں۔ہبہ کے مطابق انہیں سوالات کے ہر ایک سے مختلف جوابات حاصل ہوتے۔
ترجمے کی مشق
لہذا انہوں نے خود ہندوازم کے مطالعے کا فیصلہ کیا اور پھر گیتا کا تفصیلی مطالعہ کیا اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کے مطالعے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ان کے والد احمد خان نے ان کی ہر موڑ پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی اور انہیں ہمیشہ مساوات، انسانیت کا درس دیا۔
ہبہ فاطمہ پابند شرع با حجاب طالبہ ہے۔وہ پابندی کے ساتھ پنجوقتہ نمازیں ادا کرتی ہیں اور روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہیں۔ ہبہ فاطمہ نے انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور مختلف گوشوں سے ان کی زبردست ستائش کی جارہی ہے ۔وہ اپنے کام کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔
داد و تحسین اور ریکارڈس
ہبہ فاطمہ کو سنسکرت زبان میں مہارت نہیں ہے تاہم انھوں نے ہندی، انگریزی اور تلگوزبان کی مدد سے بھگوت گیتا کا اردو میں ترجمہ کیا ان کی صلاحیتوں کے علماء، ائمہ اور پنڈت بھی معترف ہیں ۔تمام مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے انہیں ستائشی کلمات وصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے کم عمری میں ہی انٹرنیشنل بک آف ریکارڈس، ورلڈ وائیڈ بک آف ریکارڈ س، ہائی رینج بک آف ورلڈ ریکارڈ س، نوبل ورلڈ ریکارڈس اور دیگر میں اپنا نام درج کروایا ہے۔ہبہ فاطمہ کے اردو ترجمہ کی پنڈتوں نے جانچ کی اور مکمل طور پر درست ہونے کی تصدیق کی۔
انعام و اعزاز
ابتدائی تعلیم
ہبہ فاطمہ بچپن ہی سے کافی ذہین واقع ہوئی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر اردو میڈیم کی طالبہ ہیں تاہم اردو ،ہندی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتی ہیں۔ انہوں نے زیڈ پی ایچ ایس اردو میڈیم رنجل سے ایس ایس سی کامیاب کیا۔ اسٹانڈرڈ گرلز کالج بودھن سے انٹرمیڈیٹ اعلی نشانات کے ساتھ مکمل کیا۔
بھگوت گیتا الگ الگ زبان میں
فاطمہ نے اپنا ذریعہ تعلیم بدلتے ہوئے انگریزی میڈیم سے بی ایس سی کی تکمیل کی اور مولانا آزاد یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کامیاب کیا وہ ایجوکیشن میں ڈپلومہ بھی کامیاب ہیں اور معلمہ بن کر انسانیت کی خدمت کا عزم رکھتی ہیں۔
خاندانی پس منظر
ہبہ فاطمہ کے والد احمد خان صابن کے کاروبار سے وابستہ ہیں جبکہ ان کی والدہ زاہدہ پروین گھریلوخاتون ہیں اور وہ مہاراشٹراکی متوطن ہیں۔ہبہ فاطمہ کی چھوٹی بہن زیبا فاطمہ ڈگری فائنل ایئر کی طالبہ ہیں۔ چونکہ ہبہ کی والدہ کا تعلق مہاراشٹرا سے ہے ۔حال ہی میں مہاراشٹر اکے سرکردہ سیاسی قائدین کی جانب سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں ہبہ فاطمہ کو تہنیت پیش کی گئی اور سیاسی قائدین نے مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے ہبہ فاطمہ کے بھگوت گیتا کے اردو ترجمے کو کتابی شکل دینے کا وعدہ کیا۔
ہبہ فاطمہ کے الگ الگ روپ
ہبہ فاطمہ نے آواز دی وائس کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے متحدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب میں ایک دوسرے کے احترام اور انسانیت کی تعلیم دی گئی ہے اور اسی مشن کو عام کرنے کے لئے وہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اس کے باوجود سماج کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ تاحال ان کی کسی بھی ادارے یا تنظیم کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے مہاراشٹرا کے قائدین کی جانب سے ان کی ستائش اور بھگوت گیتا کےاردو ترجمہ کو کتابی شکل دینے کے وعدے پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ تلنگانہ حکومت کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ تنظیمیں بھی ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں دست تعاون دراز کریں۔
ہبہ فاطمہ کے کام کا اعتراف
ہبہ فاطمہ اپنے یوٹیوب چیانل میسج فار آ ل میں مختلف مذاہب میں یکسانیت سے متعلق ویڈیوز بھی پوسٹ کرتی ہیں ۔ وہ آن لائن کلاسس لینے کی خواہاں ہے کیونکہ بہت سارے افراد نے خواہش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے انہیں سرمایہ کی ضرورت ہے وہ اسپانسرس، رضاکار انہ تنظیموں اور حکومتوں کے تعاون کی طلبگار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مذہبی منافرت کے خاتمے کے بغیر ہم ترقی کے ثمرات حاصل نہیں کر سکتے ۔
ہبہ فاطمہ نےنوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنا قیمتی وقت غیر ضروری طور پر ضائع نہ کریں بلکہ سماج کی اصلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور مختلف رنگ برنگی پھولوں کے گلدستے اپنے مادر وطن ہندوستان کو جنت نشاں بنانے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔