صابرہ :سب انسپکٹر’ کی ’ ڈی ایس پی‘بیٹی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-03-2021
صابرہ انصاری مدھیہ پردیش کے دیواس میں بطور ڈی ایس پی (خواتین کے سیل) تعینات ہیں
صابرہ انصاری مدھیہ پردیش کے دیواس میں بطور ڈی ایس پی (خواتین کے سیل) تعینات ہیں

 

 

شاہد حبیب ۔ نئی دہلی

ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان سرکاری نوکریوں کے حوالے سے جو مایوسی ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے. متوسط ​​طبقے کے مسلمان خاندانوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے بچوں کو شاید ہی کوئی سرکاری ملازمت ملے گی لہذا انہیں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے کسی دوسرے کام میں مشغول رکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن  متوسط ​​طبقے کی ایک مسلمان نوجوان عورت نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بن کر اس طرح کے خدشات کو غلط ثابت کیا ہے۔

اندور کی رہائشی صابرہ انصاری مدھیہ پردیش کے دیواس میں بطور ڈی ایس پی (خواتین کے سیل) تعینات ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے والد اندور کے ایک پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں۔

صابرہ بتاتی ہیں کہ ان کا بچپن کوئی خاص نہیں تھا اور کبھی کوئی بڑا خواب ان کے آس پاس بھی نہیں پھٹکا ۔ جب وہ کالج میں تھیں اس دوران ہی ان کی شادی کی تجویز آنے لگیں لیکن اسی دوران کچھ الگ کر گزرنے کی تمنا ان کے اندر شعلہ بن کے بھڑکنے لگی ۔  بلآخر وہ پولیس فورس میں شامل ہوئیں اور اپنی مستقل محنت اور لگن کے نتیجے میں ڈی ایس پی بن کے ہی دم لیا ۔

اس نوجوان خاتون نے بتایا کہ اندور کے ایک سرکاری اسکول سے فارغ ہونے کے فورا بعد ہی اس نے ایک کالج میں داخلہ لیا اور اپنی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری بھی شروع کردی۔ وہ 2013 میں سب انسپکٹر کے طور پر منتخب ہوئیں اور بعد میں اپنی صلاحیت اور محنت کے بوتے 2018 میں سدھی میں ٹرینی ڈی ایس پی کے عہدے پر تعینات ہو گئیں ۔

صابرہ کا خاندان اصل میں اترپردیش کے بلیا سے تعلق رکھتا ہے لیکن ان کے اہل خانہ ان کے والد کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے تقریبا 30 سال قبل اندور میں بس گئے ۔ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے صابرہ کہتی ہیں کہ میں اسکول میں اوسط طالبہ تھی اور ایک بار ریاضی میں فیل بھی ہوگئی تھی۔

اپنے افسر بننے کے سفر کے بارے میں وہ بتائی ہیں کہ ان کی شادی کی تجویز صرف 19 سال کی عمر میں آ گئی تھی ۔ میں اس سے کچھ ڈر سی گئی تھی اور کچھ الگ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا اور پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کالج کے دوران سول سروسز کی تیاری شروع کردی اور پہلی کوشش میں ہی کامیابی کا ذائقہ چکھا- میں نے اس وقت سے اپنی پڑھائی کو جاری رکھا ۔

صابرہ نے مزید کہا کہ میری والدہ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ ابتدائی دور میں یہ واضح نہیں تھا کہ آیا مجھے پولیس میں شامل ہونے کا انتخاب کرنا چاہئے یا نہیں -چونکہ میرے والد ہمیشہ پولیس سروس میں ہی رہے ہیں، اس لئے ذاتی طور پر میرے اندر بھی پولیس افسر بننے کی خواہش پل رہی تھی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صابرہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ریاستی سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور اب وہ اپنی برادری کے لئے ایک مشعل راہ بن چکی ہیں ۔

متعدد بار اسے اسکول کے پروگراموں سمیت مختلف تقاریب میں اعزاز سے نوازا گیا جہاں وہ ان بچوں کے ساتھ بات چیت کرتی ہیں جو ان کی کامیابی کے سفر کے بارے میں جاننے کے شوقین ہوتے ہیں۔ صابرہ کہتی ہیں کہ میں ہمیشہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں اور انہیں زندگی میں کچھ کرنے کی ترغیب دینے کی بھی کوشش کرتی ہوں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ چھوٹے بچے میرے ساتھ سیلفیاں لینا بہت پسند کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اکثر مسلمان خاندانوں ، خاص طور پر لڑکوں کی کونسلنگ کرتی ہوں۔ میں ہر ایک سے کہتی ہوں کہ وہ خود پر اعتماد رکھیں اور سنجیدگی سے تعلیم حاصل کریں۔ محنت سے چیزیں ضرور بدلیں گی۔ صابرہ نے کہا کہ اسے اپنے والد سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہی ہوسکتا ہے کہ صابرہ لاک ڈاؤن کے دوران اسی پولیس اسٹیشن کی انچارج تھیں جہاں ان کے والد تعینات تھے۔ دراصل ، اس کے والد اترپردیش میں کسی کام کے لئے گئے تھے جب لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اور وہ پھنس گئے تھے۔ صابرہ نے کسی طرح اپنے والد کو واپس لانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار ، پولیس حکام نے ہدایت جاری کی کہ وہ جہاں پر ہیں وہیں سے ڈیوٹی انجام دے سکتے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ وہ کئی بار اپنے والد کے ساتھ رات کے وقت گشت پر نکلی ہیں ۔ تاہم گھر واپس آنے کے بعد وہ ان کے لئے کھانا بھی بناتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک افسر کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے ہیں لیکن صابرہ کو کئی بار انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ صرف دفتر میں افسر ہیں، گھر میں نہیں ۔