پیدائشی طور پر کوئی بھی سچا ہندو یا مسلمان نہیں ہوتا: ورسٹائل اداکار عادل حسین

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2024
 ورسٹائل اداکار عادل حسین
ورسٹائل اداکار عادل حسین

 

عریف الاسلام/گوہاٹی

ایک بہترین تھیٹر آرٹسٹ، نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں ایک فیکلٹی، اور اب، بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ فلموں کے سب سے زیادہ پسندیدہ کیرکٹر اداکاروں میں شامل ہیں عادل حسین جو آسام کا فخربھی ہیں۔ عادل نے دو نیشنل فلم ایوارڈز، ایک نارویجن نیشنل فلم ایوارڈ، شیکسپیئرز اوتھیلو: اے پلے ان دی بلیک اینڈ وائٹ، اور یو کے میں گڈ بائی ڈیسڈیمونا جیتے ہیں۔ انہوں نے ہندی، آسامی، بنگالی، تمل، مراٹھی، ملیالم، نارویجن، فرانسیسی اور مرکزی دھارے کی ہالی ووڈ فلموں میں کام کیا ہے۔ ان کی اداکاری سے سجی فلمیں ہیں

  The Reluctant Fundamentalist

 Life of Pi

مغربی آسام کے گولپاڑہ ضلع میں ایک آسامی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے، عادل حسین عالمگیریت، سرو دھرم سمابھاو اور واسودیو کٹمبکم کی روایتی ہندوستانی اقدار پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔آوازدی وائس آسامی کے ساتھ ایک وسیع انٹرویو میں، عادل حسین نے اپنی ذاتی زندگی، مذہب، سیاست، کرپشن، فلموں اور اپنے خوابوں کے بارے میں اپنے خیالات اور عقائد کے بارے میں بات کی۔

awaz

سابق وزیراعلیٰ آسام سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے عادل حسین 

سوال: بچپن کے عادل حسین اور آج کے عادل حسین میں کیا فرق ہے؟

  عادل حسین: انسان آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے، چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے اور آخرکار بوڑھا ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا لیکن میرے والدین اور میرے اساتذہ نے مجھے لطیف، تیز اور گہرا بننے کی ترغیب دی۔ جب میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی)، نئی دہلی میں پڑھنے گیا تو میں مزید گہرائی میں چلا گیا۔ این ایس ڈی میں اساتذہ نے مجھے سکھایا کہ زندگی میں ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی واقعہ کو بلیک اینڈ وائٹ بنایا جائے۔ کسی واقعہ کے صرف ایک یا دو رخ نہیں ہوتے بلکہ اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ میں شاید بچپن میں بہت سی باتیں نہیں سمجھ پایا تھا لیکن اب میں بہت کچھ سمجھتا ہوں اور چیزوں پر میرا ردعمل،  میرے بچپن کے ردعمل سے مختلف ہے۔ اس دنیا میں 7.5 بلین لوگ ہیں لہذا، جس طرح سے میں ایک  واقعہ کو دیکھتا ہوں، ایک دوسرے شخص کا اسی واقعہ پر مختلف نقطہ نظر ہوسکتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی سالوں میں میں کسی بھی واقعہ پر صرف ایک یا دو زاویے سمجھتا تھا، لیکن اب میں کسی واقعے کو تمام زاویوں سے دیکھ یا سمجھ سکتا ہوں۔

awaz

امیتابھ بچن کے ساتھ عادل حسین

سوال: آپ کا سفر کتنا مشکل تھا؟ کیا آپ کے ٹیلنٹ کو صحیح وقت پر پہچانا گیا؟

عادل حسین: ہر کسی کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم دوسرے لوگوں میں یا اپنے آپ میں ایسی صلاحیتوں کو پہچان سکتے ہیں۔ اب عارف، آپ صحافت میں ہیں کیونکہ آپ میں اس پیشے کے لیے مطلوبہ ٹیلنٹ موجود ہیں۔ اگر آپ کے والد نے آپ کو طب پڑھنے پر مجبور کیا ہوتا تو آپ شاید بہت اداس ڈاکٹر بن جاتے۔ میرے خیال میں اس دنیا میں تقریباً 99 فیصد لوگ وہ نہیں کر سکے جو وہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ ساتھ ہی میں اداکار بننے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے لوگوں پر الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ ان کے لیے یہ سوچنا بھی ممکن نہیں تھا کہ آسام کے گولپاڑہ ضلع کی ایک چھوٹی سی جگہ کا رہنے والا عادل حسین کسی دن اداکار بن جائے گا۔

لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کالی رنگت والا عادل اداکار کیسے بن سکتا ہے۔ اگرچہ لوگوں کی سوچ اور ذہنیت کے نتیجے میں کچھ معاملات میں منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں، لیکن میں نے اسے مثبت اور چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ اگر لوگ یا فطرت مجھے نہ روکتی تو میں کیسے پہچانا جاتا کہ مجھے اداکاری سے کتنا پیار ہے؟ اگر مجھے واقعی اداکاری پسند ہے تو میں تمام رکاوٹوں کے باوجود جس چیز سے محبت کرتا ہوں اس کے لیے مشق کروں گا یا تیاری کروں گا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے والد کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دی۔

awaz

اے آر رحمان کے ساتھ عادل حسین 

ایک بار جب میں ممبئی کے ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ کام کر رہا تھا، وہ چاہتے تھے کہ میں ایک معاہدے پر دستخط کروں جس پر اسٹامپ پیپر تھا۔ معاہدہ یہ تھا کہ اگلے دو سالوں میں ، میں  جتنی بھی فلمیں کروں ، وہ ان کی اجازت سے کروں۔ میں نے فوراً پروڈکشن ہاؤس کو بتایا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے اپنے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں اپنے والد کی بات تک نہیں سنی۔ ایسے حالات میں پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ کیسے کام کرسکتا ہوں؟ پھر، میں نے ایک ای میل بھیجی جس میں کہا گیا تھا کہ میں ان کے ساتھ صرف اس صورت میں کام کروں گا جب وہ اس شرط کو ختم کریں۔ بعد میں انہوں نے شرط ہٹا لی۔

سوال: آپ شروع میں تھیٹر کے اداکار تھے۔ کس چیز نے آپ کو سنیما کی طرف راغب کیا؟

عادل حسین: آپ کا سوال بالکل درست نہیں ہے۔ میں امیتابھ بچن، دھرمیندر، آسامی فلموں کے ہیرو بیجو دا اور نپون دا کو دیکھ کر بڑا ہوا ہوں لہذا، میں بچپن سے ہی فلموں میں اداکاری کرنا چاہتا تھا۔ میں نے این ایس ڈی میں جانے سے پہلے آسامی میں کئی فلمیں اور سیریل کیے ہیں۔ جب میں اداکاری سیکھنے این ایس ڈی گیا تو مجھے اسٹیج سے پیار ہو گیا۔ اسٹیج نے مجھے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے آخری مرحلے تک پہنچایا۔ این ایس ڈی کے پاس قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشہور ڈائریکٹرز ہیں جو ہمارے پاس دنیا کے بہترین مصنفین بشمول شیکسپیئر اور برنارڈ شا کے ڈرامے لے کر آتے ہیں۔ ان ڈراموں کو سمجھنا، مختلف کرداروں میں اداکاری کرنا اور انہیں اسٹیج پر پیش کرنا ضروری ہے۔ ڈرامے کر کے ایک سال میں جو سکون ملتا ہے وہ مجھ میں ان 25 سے 30 سالوں میں غائب تھا جب میں فلموں میں اداکاری میں مصروف تھا۔

میں2008 میں، این ایس ڈی میں پڑھا رہا تھا۔ میں نے این ایس ڈی میں پڑھا کر زیادہ پیسے نہیں کمائے اور اس طرح میرا ایک دوست چاہتا تھا کہ میں اس کی فلم میں کام کروں، جو بہت مشہور ہوئی۔ اس فلم کا نام ’’عشقیہ‘‘ تھا اس فلم میں نصیر الدین شاہ، ارشد وارثی ہیں اور ودیا بالن نے میری بیوی کا کردار ادا کیا ہے۔ کچھ دنوں بعد میری شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد مجھے کچھ زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی، اس لیے میں نے فلموں میں زیادہ اداکاری شروع کی۔

سوال: آپ فلم یا فلم کے کردار کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟

  عادل حسین: 99فیصد فلموں کے لیے میں پہلے خلاصہ پڑھتا ہوں، پھر "کیرکٹر بریف" دیکھتا ہوں۔ پھر میں الگ سے اپنی کارکردگی کا خلاصہ پوچھتا ہوں۔ میں ڈائرکٹر سے تب ہی بات کرتا ہوں جب مجھے سب کچھ پڑھ کر اچھا لگے۔ اگر ڈائریکٹر مانوس ہے، تو مجھے اس سے بات کرنے کے بعد اچھا محسوس ہوگا کیونکہ مجھے فلم میں اداکاری کے دوران 30-40 دن تک اپنی بیوی یا بچوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔ اگر مجھے ان لوگوں کی وابستگی یا لگاؤ پسند نہیں ہے جن کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، تو میں ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ، جب میرے بینک اکاؤنٹ میں پیسے ختم ہو جاتے ہیں اور اکشے کمار مجھے فلم کرنے کی دعوت دیتے ہیں، تو میں کہانی دیکھتا ہوں اور اداکاری کرتا ہوں۔

سوال: آپ نے بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے مقابلے آسامی فلموں میں کم کام کیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

عادل حسین: جب میرے پاس آسام سے کوئی اسکرپٹ آتی ہے تو میں ہر قسم کی فلموں کے لیے ایک ہی اصول پر عمل کرتا ہوں۔ میں تمام فلموں کے ساتھ اسی طرح کامعاملہ کرتا ہوں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ آسامی سنیما کا معیار کم ہے۔ اگر معیاری کہانی اور مضبوط کردار والی فلم میرے پاس آتی ہے تو میں اسے کرتا ہوں۔ میں آسامی فلموں کو اسی معیار کے مطابق سمجھتا ہوں جیسا کہ میں دوسری فلموں کو سمجھتا ہوں۔ میں نے ایک آسامی فلم بنائی ہے جس کا نام شرینگھل ہے، یہ بہت خوبصورت فلم ہے۔ اورمیں نے کی ہے

 Midnight Caterpillar

Kathanadi

میں آسامی فلموں میں زیادہ پیسہ کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ آسام میں بہت کم پیسہ ہے۔ اس لیے اگر کہانی اور کردار کا معیار اچھا ہے تو میں آسامی فلمیں کرتا ہوں۔ آسامی فلموں میں وہ رقم مانگنے کی ضرورت نہیں ہے جو میں غیر ملکی فلموں یا ممبئی میں مانگتا ہوں۔ جب کوئی فلم فنکارانہ نقطہ نظر سے اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے تو میں اسے کرتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میرا وقت اچھی طرح گزرا ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں 'رگھوپتی' جیسی کچھ آسامی فلموں کی حالیہ کامیابی کے پیش نظر آسامی سنیما کا مستقبل کیا ہے؟

  عادل حسین: میں نے ابھی تک کوئی نئی آسامی فلم یا 'رگھوپتی' نہیں دیکھی۔ میں نے فلم ’’ڈاکٹربیز بروا"کی کیونکہ نپون ڈائی نے یہ کیا۔ میں کہتا ہوں اچھے دن آتے ہیں جب کوئی فلم فنکارانہ طور پر اچھی ہوتی ہے۔ ریما داس کی 'تاراز ہسبینڈ ' بہت اچھی ہے۔ وہ فلم آسامی فلم انڈسٹری کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔

awaz

بالی وڈاداکاروں کے ساتھ عادل حسین 

سوال: عادل حسین مذہب کو کیسے سمجھتے ہیں؟

عادل حسین: میرے خیال میں مذہب بہت ذاتی معاملہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی ہندو گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود ہندو نہیں بن سکتا اور یہی معاملہ ایک مسلمان کا ہے۔ میں کسی شخص کو سچا ہندو صرف اسی صورت میں کہوں گا جب وہ ہندومت کی اعلیٰ ترین اقدار پر عمل کرے۔ مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ دراصل ہم سب ہندو ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان میں ہماری تہذیب دس ہزار سال پرانی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے اسلاف نے اسلام قبول کیا۔ میرے خیال میں بچوں کو تمام مذہبی صحیفوں کو اسی طرح پڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے جس طرح وہ اسکول میں کسی مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ قرآن، گیتا اور بائبل ضرور پڑھیں۔ پھر انتخاب کریں کہ وہ کس مذہب کی پیروی کریں گے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ میں اپنے خالق کے ساتھ جو رشتہ بناتا ہوں اس پر بات کرے۔ نہ میرا باپ، نہ معاشرہ، نہ حکومت۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ میں کس مذہب کی پیروی کروں گا۔

سوال: آسام کو ہمیشہ شنکر اور اذان کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ آج کل ایسی کوششیں اور واقعات ہو رہے ہیں جب ہندو اور مسلمان آپس میں جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا واقعہ دیکھا ہے؟

عادل حسین: مجھے ذاتی طور پر کہیں بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ عام طور پر کچھ لوگوں کو کچھ عناصر ایسے واقعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال کرنے والے انتہائی ذہین ہوتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کی بنیاد پر تصادم کا سبب بنتے ہیں وہ صحیح معنوں میں مذہب کو نہیں جانتے یا اس کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔ لیکن وہ مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ میں دو سال تک پورے ہندوستان میں اپنی موٹر سائیکل چلاتا رہا۔ میں گائوں گیا اور مجھے کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ میں نے وہاں بھی اچھا وقت گزارا ہے جہاں ایک بھی مسلمان گھر نہیں ہے۔

میں جب بھی مذہبی لڑائی سنتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ ساری لڑائیاں سیاست کی ہیں۔ عارف، آپ کا نام مسلم نام نہیں ہے، آپ کا نام عربی نام ہے۔ دنیا میں بہت سے عربی بولنے والے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔ جب لوگ میرا نام عادل حسین سنتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں۔ عربی ایک زبان ہے، اسلام ایک مذہب ہے۔ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اب اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناروے میں پیدا ہوتے تو وہ نارویجن ہوتے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی مذہبی جھگڑے ہوتے ہیں وہ سیاست یا حکومت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

سوال: آپ ہندوستانی کی تعبیر کیسے کرتے ہیں؟

عادل حسین: میں سنتا تھا کہ ہندوستان کی سرحد کبھی افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ اب میں موجودہ سیاسی سرحد کو تسلیم کرتا ہوں۔ ہندوستانی وہ ہیں جو پرانے ہندوستان کی سرحدوں کے اندر رہتے ہیں اور قدیم زمانے سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے فلسفیانہ صحیفوں کا احترام کرتے ہیں۔ اس ملک میں اذان فقیر بھی آئے، خواجہ معین الدین چشتی بھی آئے ہیں۔ تمام مذاہب کے لوگ ان صوفی بزرگوں کے پاس جاتے ہیں۔ خالق سے میرا تعلق ذاتی ہے۔ اس ذاتی تعلق کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی عزت نہیں کرتا تو اس نے ہندوستانی تہذیب کو قبول نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں ہے۔

سوال: اگر کوئی آپ کی مقبولیت کی وجہ سے آپ کو سیاست میں آنے کی دعوت دے تو کیا آپ آئیں گے؟

  عادل حسین: سیاست میں آنے کی دعوت مجھے 2014 میں ملی، تب میں نے انہیں بتایا کہ میں گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے اداکاری میں کمال لانے کی کوشش کر رہا ہوں اور ایسا نہیں کر سکا۔ میں راتوں رات اچانک سیاست دان کیسے بن جائوں؟ میں نے سیاست نہیں پڑھی، میں نے معاشیات نہیں پڑھی، میں نے بین الاقوامی تعلقات نہیں پڑھے، میں نے سماجی علوم نہیں پڑھے۔ ایسے کیریئر سے جڑے مسائل کا مطالعہ کیے بغیر میں سیاست کے ساتھ انصاف کیسے کر سکتا ہوں؟ سیاست کرنے کے لیے بہت پڑھنا پڑتا ہے۔ سیاست کرنے کے لیے عوام کی خدمت کا رجحان بھی ہونا چاہیے۔ میں اسے سودھرم کہتا ہوں۔ جب ایک گلوکار کو پولیس کی نوکری دی جائے تو وہ اس نوکری کے ساتھ انصاف کیسے کر سکتا ہے؟ آپ صرف اس صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب آپ وہ کرتے ہیں جو آپ کرنا پسند کرتے ہیں یا آپ فٹ ہیں۔

awaz

سنی دیول کے ساتھ عادل حسین 

میرے بہت سے اداکار اور فنکار دوست ہیں جو اب پولیس والے ہیں۔ وہ اچھے پولیس والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو دل و جان سے نہیں نکلتا اسے مسلط کرنا برا ہے۔ میرے خیال میں سیاست کرنے کے لیے آپ کو اچھی طرح سے پڑھنا ہوگا۔ ایک اچھا سیاستدان بننے کے لیے آپ کو ایمانداری سے نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہونا ہوگا بلکہ ذہنی طور پر بھی مضبوط ہونا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ سیاست دان زیادہ تر سیاست کاروبار کے لیے کرتے ہیں۔

سوال: وہ اداکار اور ہدایت کار جن کے ساتھ آپ مستقبل میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

  عادل حسین: ہندوستان میں مجھے امول پالیکر کے ساتھ  کام کرنے کی بہت خواہش ہے۔ بیرون ملک میں بین کنگسلے، رابرٹ ڈی نیرو، ڈینیئل ڈیلیوس کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں مارٹن اسکورسی اور کچھ دوسرے جاپانی ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کروں۔