رہنما' کی رہنمائی میں یوگا کرتی پردہ نشین خواتین'

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-07-2021
 رہنما' کی رہنمائی میں یوگا کرتی مسلم خواتین'
رہنما' کی رہنمائی میں یوگا کرتی مسلم خواتین'

 

 

آواز  دی  وائس، نئی دہلی

 

ریاست اتراکھنڈ کے ضلع نینی تال ہلدوانی کی رہنے والی18 سال مسلم لڑکی رہنما مکرانئی کا ان دنوں سُرخیوں میں ہے۔

رہنما مکرانئی اگرچہ عمر میں چھوٹی ہیں، تاہم وہ پردہ نشیں خواتین کو یوگا سکھانے میں مصروف ہیں۔awaz

یوگا کرتی خاتون

رہنما بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ گذشتہ برس جب کورونا وائرس کی پہلی لہر کے سبب ہندوستان میں لاک ڈون نافذ ہوا تو رہنما کے بھی اسکول بند گئے۔ اب انہیں گھر پر رہنا پڑ رہا تھا، تاہم انھوں نے لاک ڈاون کو موقع میں تبدیل کرتے ہوئے اس سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا۔

خیال رہے کہ رہنما ایک باکسر ہیں، انھوں باکسنگ کی ٹرینگ ضلع پتوراگڑھ میں'اسپورٹ اتھورٹی آف انڈیا'سے حاصل کی تھی۔

انھوں نے لاک ڈاون کے دوران اپنی اپنی فٹ نیس پر دھیان دینا ضروری تھا، اس کے لیے وہ روزانہ پریکٹس کرنے کے لیے پارک میں جانے لگیں۔

awaz

یوگا کرتی برقع پوش خواتین

خیال رہےکہ رہنما کا تعلق ایک روایتی مسلم گھرانے سے ہے۔ جہاں کی خواتین حجاب لگاتی ہیں۔ مگر رہنما بذات اس کا اہتمام نہیں کرتی ہیں۔

awaz

یوگا کرتی برقع پوش خواتین

کورونا وائرس اور لاک ڈاون کے دوران رہنما روزانہ پارک جاکر ورزش کرتی تھیں، وہاں انھوں نے دیکھا کہ برقع پوش خواتین بھی پارک میں روزانہ اعلی الصباح گھومنے آیا کرتی تھیں۔

پارک کے اندر انھوں نے برقع پوش خواتین سے ملاقات کی، اس کے بعد انھوں نے اسٹریو ٹائپ(stereotype) یوگا سکھانے کا فیصلہ کیا۔

رہنما مکرانئی کی والدہ آنگنواڑی سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنی نوعمر بیٹی کے خیالات کا ساتھ دے کر انہیں عملہ جامع پہنانا چاہا۔

والدہ کے تعاون سے انھوں نے برقع پوش خواتین کو یوگا سکھانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ ان کی صحت بھی بہتر ہو جائے۔یہ فیصلہ اگرچہ رہنما کے لیے چیلینج سے بھرا ہوا تھا تاہم انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتی رہیں، یہاں تک کہ علاقے کے کئی خواتین یوگا کرنے کے لیے رضامند ہوگئیں، بعد میں بہت سی خواتین نے رہنما کی رہنمائی میں یوگا کرنا شروع کردیا۔

اس کے لیے رہنما اور ان کی والدہ نے رابطہ عامہ کی سائٹ پر'واٹس اپ (WhatsApp) گروپ بنایا اور اس گروپ میں علاقے کی خواتین کو جوڑنا شروع کیا اور انہیں یوگا سے متعلق مثبت پیغام دینے لگیں۔

awaz

یوگا کرتی ہوئی برقع پوش خواتین

اگرچہ بہت سی خواتین نے ابتداً ان کی بات پر توجہ نہیں دی تاہم بہت سی خواتین کی جانب سے ان کے پاس مثبت جواب آئے۔

اس سلسلے میں رہنما مکرانئی کہتی ہیں کہ میں نے اپنے علاقے کی متعدد خواتین کو دیکھا جو سماج کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں، مگر انہیں اہل خانہ اور مسلم معاشرے کی جانب سے تعاون نہیں مل پاتا اس لیے وہ آگے نہیں بڑھ پاتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ انہیں ان کے اہلِ خانہ کی جانب سے بھرپور تعاون ملا تب وہ باکسر بن سکیں اور انہیں یوگا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوسروں کو اس تعلیم سے روشناس کرانے لگیں۔

رہنما کہتی ہیں کہ مسلم خواتین بھی یوگا کریں تاکہ نہ صرف وہ صحت مند رہیں بلکہ وہ چہاردیواری میں گھریلو ذمہ داری بھی خوش اسولبی کے ساتھ ادا کریں۔

رہنما کے مطابق ابتداً محض چند خواتین نے ان سے یوگا سیکھنے کے لیے رضا مند ہوئیں اس کے بعد اس علاقے میں یوگا سیکھنے والی برقع پوش خواتین کا ایک کارواں بن گیا۔

اب وہاں تین درجن سے زائد خواتین روزانہ یوگا کرنے کے لیے پارک میں آتی ہیں۔ یوگا کرنے کی وجہ سے ان میں بہت سی تبدیلی رونما ہونے لگی ہے۔

وہ روزانہ صبح کے ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے سات بجے تک یوگا سکھاتی ہیں۔ اور یہ بھی بڑا عجیب اتفاق ہے، یوگا کرنے والی بیشتر خواتین برقع پہن کر ہی یوگا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

رہنما مکرانئی برقع پوش خواتین کی حمایت میں کہتی ہیں کہ برقع پہننا کسی بھی خاتون کی اپنی پسند کا مسئلہ ہے، اس لیے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔

رہنما جب پارک کے اندر برقع پوش خواتین کو یوگا سکھانا شروع کیا تو علاقے کے بعض قدامت پسند لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی اور ان کے کام میں روکاوٹ ڈالنے کی بھی کوشش کی۔

اس پر مکرانئی کہتی ہیں کہ خاتون کو ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور حق کی آواز بلند کرنے میں ان کے لیے کوئی چیز مانع نہیں آنی چاہئے۔

رہنما کی والدہ شبنم کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی باکسنگ میں عالمی سطح کی چمپیئن بنے اور ملک کے لیے گولڈ میڈل حاصل کرے، تاکہ ملک و قوم کا نام روشن ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ میری بیٹی دیگر مسلم خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔میرا یہ یقین ہے کہ خواتین کسی بھی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں، اس لیے انہیں ان کے حقوق ملنے چاہئے۔

یہاں پر ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہےکہ رہنما کے والد محمد قدیر ایک آٹو ڈرائیور ہیں۔وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کی کوشش اورہمت کا احترام کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

ان کا خواب ہے کہ ان کی دختر نیک اختر قومی اور بین الاقوامی سطح کی عالمی چیمپئن بنے۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ رہنما آئی پی ایس آفیسر بنے۔

رہنما کو اپنے علاقے میں اور علاقے کے باہر ہر طرف سے ستائش مل رہی ہے۔ ان کے کام کوسراہا جا رہے ہے۔ چہار جانب ان کی حوصلے اور ہمت کی داد دی جا رہی ہے۔

جہاں رہنما کو اپنے معاشرے سے بھرپور تعاون ملا وہیں قدامت پسند افراد کی جانب سے ان کے حوصولوں کو پست کرنے کی اور ان کے عزم مصمم کو متزلزل کرنے کی بھی کوشش کی گئی، مگر وہ ثابت قدم رہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں کامیابی مل رہی ہے۔