خون ،ہندونہ مسلمان ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-05-2021
 لہو کا رنگ ایک ہے
لہو کا رنگ ایک ہے

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہر آدمی الگ سہی مگر امنگ ایک ہے

جدا جدا ہیں صورتیں لہو کا رنگ ایک ہے

انسان کادھرم ہوسکتاہے مگر خون کا کوئی دھرم نہیں۔ بلڈبینک میں سارے خون یکساں ہوتے ہیں اور سب کے خون کا رنگ بھی ایک ہی ہوتاہے۔ہندواور مسلمان کے خون کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتامگر سب سے بہتروہ خون ہے جو کسی کی جان بچانے کے کام آجائے۔ ویسے کچھ لوگوں کے لئے یہ بات ایمان جیسی ہے کہ جب ضرورت پڑے تو خون دے کرجان بچائی جائے،یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ سامنے والے کا دھرم کیا ہےَ؟ وہ کس رنگ ونسل اور قومیت سے ہے؟

کورونا دورمیں یہ بات بار بار سامنے آئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی جان بچانے کے لئے آگے آئے، کبھی خون دے کراور کبھی آکسیجن کا انتظام کرکے۔ اس مشکل کھڑی میں کسی نے، کسی کا مذہب نہیں پوچھا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے ہندووں کے انتم سنسکارتک کی ذمہ داری نبھائی۔ اس طرح ان لوگوں کی سازشیں بری طرح ناکام ہوئیں جو ملک کے عوام کو ہندو۔مسلم کے خانے میں بانٹنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

روزہ توڑکرجان بچائی

awazurdu

خون کا کوئی مذہب نہیں

ابھی چنددن قبل کی بات ہے جب باغپت کے نوشاد ملک نے رمضان کے دوران روزہ توڑ کر ایک ہندوبہن کوخون دیاجس سے اس کی جان بچ گئی۔اس سے ثابت ہواکہ سب سے بڑادھرم انسانیت کا دھرم ہے۔ روزہ دوبارہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگرانسان کی جان چلی جائے تو دوبارہ واپس نہیں آسکتی۔ ادے پور(راجستھان) میں محمدعقیل منصوری نے روزہ توڑ کرپلازمادیا جونرملااور الکا کی جان بچانے میں مددگارثابت ہوا۔اس قسم کی اور بھی کئی مثالیں سامنے آئیں۔

ثمرین کی جان بچائی شرمانے

ادھرمراد آبادمیں ایک ہندوبھائی نے اپنی مسلمان بہن کو عین عیدالفطرکے دن خون دے کر نہ صرف اس کی جان بچائ بلکہ فرقہ پرستوں کے منہ پر طمانچہ بھی رسیدکیا۔ امروہہ کے کے بی این اسپتال میں داخل ایک بچی ثمرین بنت مستقیم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ سخت بخار کے بعد اس کے پلیٹ لیٹ کم ہوگئے تھے۔صرف 32،000 ہزار پلیٹلیٹ باقی رہ گئے تھے۔ اطلاع ملنے پر ، شہر کی بودھ وہار کالونی کا رہائشی کوشل شرما ،سائی اسپتال کے بلڈ بینک پہنچا اور پلیٹ لیٹ کے لئے ایک جمبو پیک دیا۔ سمرین کے والد کا کہناہے کہ کوشل شرما ان کے لئے فرشتہ رحمت ہے۔ بروقت خون ملنے سے ان کی بیٹی کی حالت بہتر ہوگئی۔ ایسے لوگ معاشرے کے لئے مثال ہیں۔

مسلم حاملہ کی جان ہندونوجوان نے بچائی

ایسی ہی ایک مثال بنارس سے سامنے آئی ہے جہاں ایک ہندو نوجوان نے خون دے کر ایک مسلم حاملہ عورت کی جان بچائی۔ جیت پورہ رہائشی ایک بنکر کی حاملہ بیوی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ اسے ساتھ لے کرخواتین کے اسپتال پہنچا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بھرتی کرلیامگرخون کی کمی بتائی اور ڈونرلانے کو کہا۔ بنکر نے اپناخون دیامگرعورت کے جسم میں خون کی شدید کمی تھی لہٰذاخون ملنے کے بعد بھی اسے مزیدخون کی ضرورت تھی۔اسےایک یونٹ اور خون کی ضرورت تھی۔

اس کے بعد شوہر نے اپنے جاننے والوں کو فون کیا لیکن کوئی بھی مدد کے لئے آگے نہیں آیا۔ ایسے میں بدحواس ہوکروہ ہسپتال کے باہرآنے جانے والوں سے درخواست کرنے لگا۔ اس دوران کبیرچوراہاعلاقے کا رہائشی روی یادو اس کے پاس پہنچااور خون دینے کی پیشکش کی۔پیشہ سے ڈرائیور روی یادوخود آئی بی اے کے بلڈ بینک پہنچااو ایک یونٹ خون عطیہ کرکے عورت کے بلڈگروپ کا خون حاصل کیا۔یہی نہیں روی یادونے خون عطیہ کرنے کے عمل میں آنے والے اخراجات بھی خود اٹھائے۔

وہ باربارعطیہ کرتے ہیں خون

سراج الحق:زندگی بچانے کا رکارڈ                                    

اس سلسلے کی ایک مثال ہیں ضلع بہرائچ کے سراج الحق جواب تک درجنوں بارضرورت مندوں کو خون دے چکے ہیں مگرکبھی ان کا مذہب جاننے کی کوشش نہیں کی۔۔جیسے ہی وہ سنتے ہیں کہ کسی کو خون کی ضرورت ہے،ان کے قدم خود بخود بلڈ بینک کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں ، دھرم کی دیوار کبھی راہ میں نہیں آتی ہے۔ انھوں نےاپنے بیٹے خورشیدکو بھی یہی کچھ سکھایاہے جوایک درجن مرتبہ سے زیادہ بار خون عطیہ کرکے لوگوں کی زندگیاں بچاچکاہے۔

کیسے سیکھا سبق؟

ایک دہائی قبل کی بات ہے جب سراج الحق اسپتال میں زیر علاج کسی جاننے والے سے ملنے گئے تھے۔ وہاں ،ایک شدید بیمار خاتون کی جان بچانے کے لئے خون کی ضرورت تھی۔ لواحقین خون کا انتظام نہیں کرپارہے تھے۔انھوں نے فورا ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور خون کا عطیہ دے کر اس خاتون کی جان بچائی۔ اس کے بعد ، ضرورت مندوں کے لئے خون کا عطیہ کرنا سراج الحق کی زندگی کا معمول بن گیا۔

انھیں دیکھ کر 25 سالہ بیٹے خورشید نے بھی خون عطیہ شروع کردیا۔ سراج الحق نے بتایا کہ ان کے خون عطیہ سے متاثر ہوکر ضلعی مجسٹریٹ نے انھیں ایوارڈ پیش کیاہے۔علاوہ ازیں اب تک بہت سارے اداروں نے انھیں اعزاز سے نوازا ہے۔سچ ہے: یہی ہے عبادت،یہی دین وایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں