عرشی سلیم: شمالی ہندوستان کی رہنے والی ملیالم ٹیچر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 20-09-2021
عرشی سلیم: شمالی ہندوستان کی رہنے والی ملیالم ٹیچر
عرشی سلیم: شمالی ہندوستان کی رہنے والی ملیالم ٹیچر

 


آواز دی وائس، کوچی

علم وفن کی منتقلی کا نام تعلیم ہے، وہیں تعلیم ایک ایسا تواتر سے جاری رہنے والا عمل ہے،جس میں سیکھنےاورسکھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

تعلیم کا ایک اہم جزو زبان ہے، زبان کے ذریعہ ہم مختلف علوم و فنون سیکھتے ہیں۔ اگرآپ نے کسی ایک زبان میں دسترس حاصل کرلی تو دوسری زبان کو سیکھنا اور سمجھناآسان ہوجاتاہے۔

ایسا ہی کارنامہ انجام دینے والی ایک خاتون عرشی سلیم ہیں، جن کا تعلق ریاست اترپردیش کے شہر سہارن پور سے ہے۔اگرچہ وہ شمالی ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں مگر وہ جنوبی ہندوستان میں، بچوں کو وہاں کی مقامی زبان یعنی ملیالم سکھا رہی ہیں۔

عرشی سلیم فی الوقت ریاست کیرالہ کے کوچی شہر میں مقیم ہیں۔ وہ وہاں کی ایک غیر سرکاری تنظیم بلاک ریسورس سنٹر(کوٹھامنگلم) سے وابستہ ہیں، یہ ادارہ سمگرشکشا کیرالہ کے زہر اہتمام اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کورونا وائرس اور لاک ڈوان کے پہلے مرحلے کے دوران اس کے تحت بلاک ریسورس سنٹر کی شروعات کی گئی تھی۔

عرشی سلیم رضاکارانہ طور مہاجر مزدوروں کے بچوں کوملیالم سکھا رہی ہیں۔ فی الوقت ان سےتقریباً تین درجن بچے(30) بچےملیالم سیکھ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس طرح کے 41 اسپیشل تربیتی مراکز ضلع میں کام کر رہے ہیں، ان کا واحد مقصد ان اسکولوں کے بچوں کو تعلیم دینا ہے، جن کے لیے آن لائن تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس سلسلے میں سمگرشکشا کیرالہ(ایس ایس کے) کی ضلع انچارج محترمہ اوشا منت نے ایک انٹرویو کے ذیل میں بتایا کہ اسکولوں کے غریب بچوں کے علاوہ بڑی تعداد میں مہاجر مزدوروں کے بچوں اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے ولا بچے بھی ان کے مراکز کی کلاسز میں شرکت کرنے آرہے ہیں۔

عرشی اپنے والدین کے ہمراہ اس وقت کیرالہ آئی تھی، جب کہ وہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی، انھوں نے وہاں ملیالم زبان سیکھی اور نیلیکوزی کے گورنمٹ ہائی اسکول سے دسویں جماعت اے پلس(+A) گریڈ کے ساتھ پاس کیا۔

عرشی سلیم کہتی ہیں کہ میں مقامی لوگوں کی طرح ملیام بولنا چاہتی تھی، اس لیے میں نے اپنے اسکول کے اساتذہ کرام سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مقامی لوگوں کی طرح ملیام سکھانے میں میری بہت زیادہ مدد کی۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ میں ایک غیر ملیالی طالبہ تھی، اس لیے مجھ کو ملیام سیکھنے میں زیادہ مشکلات پیش آئیں،جب میں نے مہاجر مزدوروں کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا تومجھےان کی پریشانیوں کا پہلے سے اندازہ تھا، اس لیے میں ان کو بہتر طریقے سے پڑھانے لگی۔

فی الوقت کوٹھامنگلم کے دو مراکز میں بطور خاص مہاجر مزدوروں کے بچوں کو ملیالم زبان سکھائی جا رہی ہے۔ ان بچوں کا تعلق ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے ہے۔ کچھ بچے اترپردیش کے ہیں تو کچھ بہار کے تو کچھ کا تعلق سرحدی ریاست آسام سے ہے۔

عرشی سلیم نے بارہویں جماعت بھی پاس کر لیا ہے۔ان دنوں وہ کمپوٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو ملیالم زبان بھی سکھانے میں مشغول ہیں۔

عرشی خان اپنی زندگی کے اگلے مرحلے میں ایک ٹیچر بننا چاہتی ہیں۔