افروز شاہ کی مدارس کے طلباء کے لیے دستور کی پاٹھ شالا

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-02-2024
افروز شاہ کی مدارس کے طلباء کے لیے دستور کی پاٹھ شالا
افروز شاہ کی مدارس کے طلباء کے لیے دستور کی پاٹھ شالا

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی

دستور میں آپ کے حقوق کیا ہیں ؟ یہ جاننا تو ضروری ہے لیکن ہمارےدستوری فرائض کیا ہیں ۔۔اس سے واقفیت بھی اتنی ہی اہم ہے ۔ پولیس میں شکایت کیسے کرنا ہے، اگر پولیس میں سنوائی نہیں ہورہی ہے تو پھر کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ عدلیہ کا رخ کب کرنا ہے ۔ قانون کی طاقت کیا ہے اور دستوری اختیارات کیا ہیں،یہ جاننا خاص طور پر ان بچوں کے کے لیے بہت ضروری ہے جو مدارس سے فارغ ہوتے ہیں ۔اس لیے قرآن کی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ انہیں اس بات کی تربیت بھی ضروری ہے کہ دستور پر کیسے عمل کیا جائے ۔کیونکہ دستور ی حقوق کا فائدہ اسی وقت مل سکتا ہے جب ہم اور آپ اس سے واقف ہوں بلکہ ان کے پابند بھی ہوں ۔۔۔

یہ الفاظ ہیں افروز شاہ کے۔۔۔جو کہ  اقوام متحدہ کے چیمپیئن آف دی ارتھ  ایوارڈ یافتہ ہیں ۔ساتھ ہی  عالمی ماحولیاتی تحفظ کے لیے مشہور کارکن اور ممبئی ہائی کورٹ میں مشہور وکیل،جنہیں اب نہ صرف ممبئی بلکہ ملک و دنیا ساحل سمندر کی سب سے بڑی صفائی مہم کے لیے جانتی اور پہچانتی ہے۔ وہ کائنات کے تئیں اپنی محبت کے سبب ہفتہ میں دو دن ساحل سمندر کی صفائی کے ساتھ پلا سٹک کے استعمال سے بچنے اور دیگر ماحولیاتی معاملوں پر بیداری پیدا کرنے میں مصروف ہیں لیکن ساتھ ہی وہ دستور کی پاٹھ شالا بھی چلاتے ہیں ،نوجوانوں کو خاص طور پر مدارس کے طلبا کو دستور کی اہمیت سے واقف کرانے میں بھی مصروف ہیں ۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے افروز شاہ نے کہا کہ  قرآن کی تعلیم کے بعد ہمیں ملک کے قانون  اور دستور کے بارے میں معلومات ہونا بہت اہم ہیں ۔خاص طور پر ایسے نوجوانوں کے لیے جو مدارس سے فارغ ہورہے ہیں کیونکہ کل یہ مختلف مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیں گے تو انہیں دستور اور قانون کی مکمل معلومات بہت مددگار ثابت ہوگی ،وہ ایک مثبت رہبر اور قائد ثابت ہونگے۔کیونکہ امام  کا کردار سماجی اور مذہبی طور پر بہت اہم ہوتا ہے۔اگر مدارس کے بچوں کو بنیادی نکات سے آگاہ کیا جائے گا تو اس کا اثر پوری قوم پر پڑے گا ۔ یہی معلومات کسی بھی شخص اور کمیونٹی کو باشعور اور امن پسند بناتی ہے۔مذہب کے ساتھ سماجی ذمہ داریوں سے بھی واقف کرتی ہے 

افروز شاہ  مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے پروگرام میں 


ممبئی میں مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر یعنی ایم ایم ای آر سی میں افروز شاہ نے کہا کہ  ادارہ سے فارغ ہورہے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے ان نکات پر روشنی ڈالی جو زندگی میں کہیں نہ کہیں اہم ثابت ہوسکتے ہیں ۔یاد رہے کہ اس ادارے کے طلبا بھی پچھلے آٹھ سال سے افروز شاہ  کی صفائی مہم سے جڑے ہوئے تھے۔بچوں کے تعلیم سے فارغ ہونے کےموقع پر افروز شاہ نے الوداعی  پاٹھ شالا میں انہیں دستور کی باریکیوں کے ساتھ انہیں ایک ہندوستانی ہونے کے ناطہ ان ذمہ داریوں کا بھی احساس دلایا جو زندگی میں توازن پیدا کرسکتی ہیں ۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے افروز شاہ نے کہا جو بچے مدارس مںی زیر تعلیم ہیں ،انہیں اس بات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے کہ سماج کے تئیں ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ہم اس میں کیا کردار نبھا سکتے ہیں یہ احسا س ہمیں مزید حساس بنا ئے گا۔  ہم کس طرح محبت کا پیغام دے سکتے ہیں ،ملک کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے ،معاشرے میں مثبت سوچ اور فکر کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے۔ اپنی سوچ کو عمل میں کس طرح ڈھالا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا یہ سیشن بہت کامیاب رہا۔ مدارس کے بچوں نے ہر بات کو بغور سنا اور  پروگرام کے بعد مجھ سے اہم نکات تحریری طور پر دینے کی بھی درخواست کی ۔

افروز شاہ نے کہا کہ جس طرح ہم گھر میں اپنے بزرگوں کی خدمت کرتے ہیں ،اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں ،بالکل اسی طرح  ہمیں ملک اور معاشرہ کے ساتھ قدرت یا کائنات کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔ہم اپنی ذاتی زندگی میں اگر قرآن پر عمل کرتے ہیں تو معاشی زندگی میں ایک شہری کی حیثیت  سے دستور اور قانون کا احترام کرتے ہیں ۔ یہی عمل ہمیں مہذب دنیا کا حصہ بناتا ہے اور  ڈسپلن کا پابند۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ افروز شاہ کی صفائی مہم میں بیس سے زیادہ مساجد اور مدارس جڑے ہوئے ہیں ،جن کے بچوں کو وہ صفائی مہم میں شامل رکھتے ہیں جس کے سبب انہیں نصف ایمان کا عملی تجربہ ہوتاہے ۔صفائی جسم تک محدود نہیں ،بات روح کی کریں گے تو آپ اپنے آس پاس کا ماحول بھی صاف ستھرا رکھیں گے۔

افروز شاہ کہتے ہیں کہ میں بچوں کو بتاتا ہوں کہ دستور کی کیا اہمیت ہے،دستور سے کس طرح محبت کریں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ  ہم نے قرآن کو سمجھا نہیں۔ اور اگر کسی نے سمجھا تو اس کا غلط مطلب نکال لیا۔وہ کہتے ہیں کہ آپ مذہب کے روحانی پہلو کو دیکھیں نہ کہ رسم و رواج پر توجہ دیں ۔ روحانیت قریب لاتی ہے ۔

ممبئی میں ایم ایم ای آر سی کے پروگرام میں افروز شاہ


آواز دی وائس سے  بات کرتے ہوئے افروز شاہ نے  کہا کہ میں ملک وقوم سے محبت کرنا قرآن کریم سے سیکھا ہے ،پیغمبر اسلام کی تعلیمات ہمیں راہ دکھاتی ہیں  کہ انسا نیت کو گلے لگا لو۔در اصل میں سمندر کی صفائی کی جانب قرآن کریم کے سبب ہی راغب ہوا ۔جس میں کائنات کے تحفظ پر ایک واضح پیغام دیا کہ کائنات میں تم تنہا نہیں ہو۔۔۔۔قرآن کے دو سطر کے پیغام نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا،میں ورسوا  کی ساحل سے صفائی مہم شروع کی ۔

افروز شاہ کہتے ہیں کہ جب میں مجاہد ین آزادی کو پڑھتا ہوں تو مجھےحیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے لوگ تھے جن کی زندگی ملک کے لیے قربان رہی،جو دیش کے لیے جئے اور دیش کے لیے مرے۔ وہ پل پل دیش کے لیے جئے۔ان کی زندگی میں ملک کی خدمت کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن آج ہماری زندگی صرف اور صرف ہمارے خٓاندان تک محدود ہے ۔گاندھی ،نیتا جی اور پٹیل نے اپنی زندگیاں نچھاور کردیں ۔نہ جان کی فکر کی نہ مال کی۔ نہ اپنے خٓندان کے بارے میں سوچا۔لیکن اب نئی نسل کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے ۔اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ نئی نسل میں بیداری پیدا کریں ،اسے ملک کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیں ۔

awazurduانڈین آف دی ائیر کے پروگرام میں  شاہ رخ خان اور افروز شاہ 


افروز شاہ کا کہنا ہے کہ میں نے صفائی مہم میں مدارس کے بچوں کو جوڑا تاکہ انہیں نصف ایمان کی اہمیت کے ساتھ اپنے فرائض کا بھی احساس ہو۔دنیا  میں ماحولیاتی چیلنج سے بھی یہ بچے واقف ہوں کہ آخر کیوں اس قسم کی صفائی کی اہمیت ہے۔جب یہ فارغ بچے امامت کے درجے پر پہنچیں گے تو  یہ اس بیداری کے سبب قوم کے حقیقی رہبر بن سکیں گے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے ہر سطح پر یہی پیغام دیا ہے کہ انسانوں اور دیگر جانداروں کے حقوق میں ٹکراو نہ ہو۔ دنیا میں ہم پھیلتے جارہے ہیں ،ایک بوجھ بن کر دوسری مخلوقوں کا حق بھی مارنے لگے ہیں،اپنی زندگی کے سوا کچھ دیکھ نہیں پا رہے ہیں ۔جن کی حق تلفی ہورہی ہے وہ بے زبان ہیں ۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنی زندگی کو آسان اور عام بنائیں گے تو دیگر مخلوقوں کے ساتھ حقوق کا ٹکراو کم ہوگا۔ ہم سب کو جینے دیں۔ پانی صاف رہے گا تو مچھلیاں بچ سکیں گی،ہوا صاف رہے گی تو انسان کے ساتھ پرندے بھی بچ پائیں گے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنی زندگی کا انداز بدل لیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے مدارس کے بچوں کو اپنی صفائی مہم سے جوڑا اور اب ان مدارس بچوں کو ان پہلوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں جو کہیں نہ کہیں توجہ کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہا کہ نئی نسل کو صرف سمت دکھانے کی ضرورت ہے،نئی نسل  میں بیداری ہی ہمارے مستقبل کو تابناک کرے گی۔ یاد رہے کہ افروز شاہ کی صفائی مہم سے ممبئی کے بڑے اور نامی گرامی پبلک اسکولز کے ساتھ نامور شخصیات اورعالمی ادارے جڑے ہوئے ہیں ۔افروز شاہ نے مدارس کو اس کے ساتھ جوڑ کر جہاں نصف ایمان کے پیغام کو عام کیا ہے وہیں مدارس کے بچوں میں اپنے فرائض کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔