ابو سعد -جو موسیقی سے کرتے ہیں ’مخصوص بچوں‘ کا علاج

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2021
اسکول میں بچے
اسکول میں بچے

 

 لکھتے لکھتے ان کے اندر ذہنی طور سے بیمار بچوں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوا
موسیقی،ا دویہ اور دیگر طریقوں سے مخصوص بچوں کو معمول پر لانے کا بیڑا اٹھایا
سید ابو سعد اور ان کی ٹیم بچوں کی ہر ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے

کانپورسید ابو سعد نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت سے اپنے کریئر کے آغاز کے ساتھ سماجی تنظیموں کو کور کرنے کا کام حاصل کیا۔ مختلف تنظیموں اور ان کے کاموں کے بارے میں اطلاع دیتے وقت، انھیں پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب’مخصوص بچوں‘ کی جانب ملتفت ہوئے اور ملازمت چھوڑ کر ان کی دیکھ بھال اور علاج میں مصروف ہوگئے۔ سید ابو سعد وہ انسان ہیں جوخود سے زیادہ مخصوص بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کی صحت یابی کے لئے مختلف طریقوں کی معلومات جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں اوراس مرض میں موسیقی تیر بہ ہدف ثابت ہوا ہے۔
نہرو نگر میں واقع ’ڈس ایبلڈ ری ہیبلی ایشن کمیٹی‘کے کوآرڈی نیٹر سید ابو سعد کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والے مخصوص بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔ انہیں معمول پر لانے کے لئے ہمیشہ مختلف تجربات کرتے ہیں۔ فی الحال، انسٹی ٹیوٹ کے دو مراکز میں تقریبا 200 بچے ہیں، جبکہ سینکڑوں بچے ٹھیک ہوچکے ہیں۔
بچے موسیقی سے سب سے تیز رفتاری سے صحتمند ہوتے ہیں

ابوسعد

سعد نے بتایا کہ اس ادارہ میں ذہنی طور سے معذور بچے،آرٹزم،اسپیچ پرابلم، ٹانگوں کے مسائل، فوری مداخلت(کوئیک انٹرونشن)، خصوصی تعلیم اور جسمانی بیماریوں والے بچے آتے ہیں۔ اس ادارہ میں 16 سال سے کم عمر بچوں کو مفت علاج کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال تک کے بچے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔علاج کے لئے میوزک تھراپی سب سے زیادہ کارآمد اور تیر بہ ہدف ہے۔ دوسری جانب ادویہ،کھیل کود وغیرہ سے بھی انہیں معمول پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہکلانے والے بیشتر بچوں سے جب گانا گانے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ ہکلاتے نہیں ہیں،اور اس طریقہ علاج سے ان کے ہکلانے کی عادت مکمل طور سے ختم ہوجاتی ہے۔

لاک ڈاو¿ن میں گروپ میسیجنگ ٹریٹمنٹ
یوں تو ادارہ کی بسیں بچوں کو ان کے گھروں سے مرکز تک لاتی اور لے جاتی ہیں،تاہم لاک ڈاو¿ن کے دوران جب سب کچھ بند ہوگیا تھا تو بڑی دقتیں آئیں۔ ادویات تو بچوں کے گھروں تک پہنچا دی گئیں، جکہ بچوں کی کلاسز چلانے کے لئے گروپس تشکیل دی گئی۔ اس طریق کار میں مختلف طرح کی دیسی اور غیر ملکی تکنیکوں کی مدد لی گئی، تاکہ ان کا علاج بغیر کسی تعطل کے جاری رہے۔
ہر بچے پر نظر
سعد اور ان کی ٹیم کے ٹیچرزاور دیگر ملازمین کی نظریں ہر بچے کی سرگرمیوں پررہتی ہیں۔ ایسے بچوں کے ’ڈیلی امپروومنٹ‘ کاچارٹ تیار کیاجاتاہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں اور کسی بھی رد عمل کی رپورٹس تیارکی جاتی ہیں، اس کے بعد ٹیچرزان کی کلاس وغیرہ تبدیل کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، ماہرین سے باقاعدگی سے مشورہ بھی لیا جاتا ہے۔
مہم میں مزید لوگوں کو شامل کرنے کا پروگرام
سید ابو سعد کہتے ہیں کہ شہر کے جو لو گ اس ادارہ کے بارے میں جانتے ہیں،وہ تو ادارہ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ دوسری جانب سینکڑوں ایسے بھی ہیں جن کواس ادارہ کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے۔ انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ ان کے بچے کی بیماری کا بروقت علاج بھی ممکن ہے۔ ایسے لوگوں کو شامل کرنے کا ارادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک شخص ان کے رابطہ میں آیا، جس کے بچہ کو بہت غصہ آتاتھا۔ وہ غصے میں اپنے جسم کوہی نقصان پہنچالیا کرتا تھا۔ انہوں نے اس بچہ کے علاج کے بارے میں انہیں بتایا۔ مرکز میں آنے کے چند ماہ بعد بچہ معمول پر آ گیا اور اب وہ غصہ نہیں کرتا۔
٭٭٭=================