مغربی بنگال میں ایک قدیم فن ’زری‘کے کاریگروں کی بدحالی کو کورونا کی وبا نے مزید نازک بنا دیا ہے۔پہلے تو یہ کاریگر اس میدان میں جدید مشینوں کے استعمال سے پچھڑ گئے تھے اب کورونا کی وبا اور لاک ڈاون نے ایسے کاریگروں کی کمر توڑ دی ہے۔زری کے کاریگروں کی بد حالی کو دور کرنے کےلئے کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں ۔لاک ڈاون کے دوران انہیں بھکمری سے بچانے کےلئے اناج اور ضروریات کا سامان مہیا کرایا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک این جی (غیر سرکاری فلاحی تنظیم) ’سوچیتنا‘ زری کاریگروں کوغربت اور ادارہ جاتی بے حسی سے نجات دلانے کے لئے میدان میں اتری ہے ۔
این جی او کی یہ بے لوث پہل زردوزی کی اس برسوں پرانی روایت کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے ۔ سال 1995 میں قائم ہونے والی اس ایک این جی (غیر سرکاری فلاحی تنظیم) سوچیتنا نے حال ہی میں زردوزی کاریگروں کے اہل خانہ کو 10،000 ساڑیاں ، سینکڑوں کلو چاول ، سلائی مشینیں ، ان کی چھتوں کو ڈھانپنے کے لئے ترپال فراہم کی ہے۔
اس کے علاوہ یہ تنظیم کاریگروں کو تربیت بھی دے رہی ہے۔ اس قدم سے صرف ضلع ہاوڑہ میں ایک اندازے کے مطابق معاشی طور پر کمزور 5 لاکھ مرد و خواتین کو کافی راحت ملی ہے۔ کورونا کے بعد ہونے والے لاک ڈاؤن کے علاوہ امفان طوفان اورمتعدد دیگر مشکلات نے کاریگروں کی کمیونٹی کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ۔
سوچیتنا نے کی مسیحائی
سارا بھارت زری شلپی کلیان سمیتی نامی تنظیم کے سکریٹری ایس کے یونس نے آواز دی وائس کو بتایا کہ سوچیتنا نے ہماری بہت مدد کی ہے۔ اس تنظیم نے ہمارے حالات کی سنگینی کو سمجھا اور ہمیں کھانے ، لباس ، پناہ گاہ اور بے روزگار کاریگروں کو روزگار کے دیگر مواقع فراہم کراے ۔ ورنہ ہم اپنے بقا کی جنگ ہار جاتے۔
اسی طرح ہاوڑہ کے پنچلا سے تعلق رکھنے والے ایک زری کاریگر اننا مولک نے بھی انہیں جذبات کی ترجمانی کی ۔ ہم نے بہت مشکل حالات دیکھیں ہیں۔ اس دوران سوچیتنا کے کارکنان کا ہم سے ملنے آنا اور ہماری بنیادی ضروریات کو پوری کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے ۔ زری کاریگروں کی زندگی سخت غربت میں گزرتی ہے جس میں انھیں دو وقت کی روٹی کا انتظام کر پانا بھی مشکل ہوتا ہے ۔
سوچیتنا’ کی سرپرست ’انوشری مکھرجی’ زری کے کاریگروں کےلئے کسی مسیحا سے کم نہیں’
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سوچیتنا روزگار کے حوالے سے ہماری بازآباد کاری میں مدد کر رہی ہے کیونکہ زری کا کام اب منافع بخش پیشہ نہیں رہا ۔ سال 2003 میں سوسائٹیز ایکٹ کے تحت این جی او کے طور پر رجسٹرڈ ہونے والی سوچیتنا انوشری مکھرجی کے زیر انتظام چل رہی ہیں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانے اور بچوں کی نشوونما بہتر بنانے اور خواندگی کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جس میں بچوں اور بزرگ شہریوں کے لئے ڈیجیٹل تعلیمی پروگرام بھی شامل ہے ۔ ہم دور دراز کے دیہاتوں تک اپنی پہنچ کو بڑھا رہے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
راجستھان کے جودھ پور کے قریب گاؤں پبوپوروا اور تامل ناڈو میں آودی کے قریب ایک دور دراز کے گاؤں کو گود لیا گیا اور ایک موڈل ولیج کے طور پر اس کی ترقی کی جس میں گاؤں کی نچلی سطح کے لوگوں کو با اختیار بنانے کے لئے صحت کی دیکھ بھال ، صفائی ستھرائی اور خواندگی کے پروگراموں وغیرہ چلائے گئے ۔ ان پروگراموں کو چلانے کے لئے سلف ہیلپ گروپ کی بھی مدد لی گئی۔ کمیونٹی کی ترقی کے اسی مقصد کو وسعت دیتے ہوئے سوچتینا نے زری کاریگروں کی بہبود کے لئے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر یہ کام انجام دیا۔
خدمت کا جذبہ
انوشری2015 سے ہی اپنے آبائی ضلع ہاوڑہ اور مغربی بنگال کے کچھ دیگر اضلاع میں ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ضرورت مندوں کی مدد کے لئے متعدد منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہماری ترجیح صحت ، حفظان صحت ، صفائی ستھرائی ، تعلیم ، ماحولیات وغیرہ پرہے- فولیشور ، الوبیریا ، ہاوڑہ میں واقع سنجیبان سپر اسپیشلیٹی ہسپتال کی مدد سے ہماری این جی او مغربی بنگال کے دور دراز دیہاتوں میں جہاں ڈاکٹروں کی کمی ہے غریب لوگوں کو طبی امداد کے ساتھ مفت صحت چیک اپ کیمپ منعقد کررہی ہے ۔ ہم نے قومی انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کے تحت بے روزگار نوجوانوں کے لئے ڈیجیٹل خواندگی کی غرض سے اناتھ بندھو سمیتی میں ایک مفت ڈیجیٹل خواندگی کورس بھی شروع کیا ہے۔
ہاوڑہ میں زری کاریگروں کی فلاح کے لئے سوچتینا کے کام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ہاؤڑا میں 5 لاکھ کے قریب زری ورکر ہیں جبکہ مغربی بنگال ریاست میں تقریبا 15 لاکھ زری ورکر ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن اور اس اس کی وجہ سے ہندوستان اور بیرون ملک زری ورک / ہنر کی مانگ میں کمی کی وجہ سے ، بہت سے کاریگر بے روزگار ہوگئے۔
بازآباد کاری کا پروگرام
اگست 2020 میں سوچتینا نے باصلاحیت زری کاریگروں کے لئے باز آبادکاری کا پروگرام شروع کیا۔ انو شری کہتی ہیں کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اناج ، لباس ، اور ترپال (امفان آفات کے دوران) سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے متعدد سیلف ہیلپ گروپ بنائے ہیں اور انہیں خودکفیل بنانے کے لئے ضروری وسائل مہیا کیے ہیں جیسے سلائی مشینیں ، کپڑے اور تربیت دینے والے ٹرینر جس سے کہ وہ ان بیروزگار کاریگروں کی سلائی کے بنیادی گروں کو سکھائیں تاکہ وہ گارمنٹس مینوفیکچرنگ اور دیگر ضروری مارکیٹنگ میں تبدیل ہوسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے انہیں مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے بھی مدد کی تاکہ بجاے اس کے کہ ان کی تیار کردہ مصنوعات کو وال مارٹ میں فروخت کیا جائےوہ مقامی مارکیٹ میں (منگلاہٹ کہا جاتا ہے) پر فروخت ہو سکیں ۔ ہم نے ان کے لئے مفت تربیت کا انتظام کیا جو تقریبا 6 ماہ تک جاری رہا۔ انوشری نے مزید کہا کہ اب ہم انہیں سلف ہیلپ گروپ اور مائکرو فیننسنگ کے ذریعہ خود انحصاری اور خود کفا لت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوچیتنا کا واحد مقصد ان غریب کاریگروں کو آتمن نربھر (خود کفیل ) بنانا ہے تاکہ مستقبل قریب میں وہ والمارٹ میں بھی اپنی مصنوعات فروخت کرسکیں۔ انوشری صرف زری کاریگروں کو ہی وسائل مہیا نہیں کررہی ہیں بلکہ انہیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی بھی کوشش کررہی ہیں جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں۔