نیو دہلی :یمن میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی کیرالا کی نرس نمیشا پریا کی سزائے موت، جو 16 جولائی 2025 کو مقرر تھی، کو عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام حالیہ سفارتی اور مذہبی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوا۔
خبر رساں ایجنسی ANI کو ذرائع نے بتایا کہ حکومتِ ہند اس مقدمے میں ابتدا ہی سے ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے، اور حالیہ دنوں میں پریا کے اہل خانہ کو مقتول طلال عبدو مہدی کے خاندان کے ساتھ تصفیہ کرنے کے لیے مزید وقت دلانے کی کوششیں کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق، ’’تمام حساس پہلوؤں کے باوجود، بھارتی حکام نے مقامی جیل انتظامیہ اور پراسیکیوٹر کے دفتر کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا، جس کے نتیجے میں یہ مہلت حاصل ہوئی۔‘‘
پریا کو 2017 میں یمنی شہری طلال عبدو مہدی کو قتل کرنے کے الزام میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، اور انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
سزائے موت میں یہ تاخیر اس وقت ہوئی ہے جب دھمار میں صوفی رہنما شیخ حبیب عمر بن حفیظ کے نمائندوں اور مقتول مہدی کے خاندان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ اس ملاقات کا بندوبست ہندوستان کے ممتاز سنی رہنما کانتھاپورم اے پی ابوبکر مسلیار المعروف شیخ ابوبکر احمد کی مداخلت سے ممکن ہوا۔مہدی کے خاندان کی نمائندگی کرنے والے فرد ہودیدہ ریاستی عدالت کے چیف جسٹس اور یمنی شوریٰ کونسل کے رکن ہیں، جو شیخ حبیب عمر کے مشورے پر دھمار پہنچے ہیں تاکہ تصفیہ کی راہ ہموار ہو سکے۔یہ پیشرفت ہندوستانی اور یمنی فریقین کے مابین جاری سفارتی روابط اور مذہبی رہنماؤں کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں اس معاملے کا پرامن حل تلاش کیا جا سکے گا۔
بلڈ منی کا معاملہ
ذرائع کے مطابق بلڈ منی یعنی کہ خون بہا (دیت) کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے ہیں اور اس کی تفصیلات کیرالہ میں متعلقہ فریقوں کو پہنچا دی گئی ہیں، تاہم اب تک ان مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے کوئی سرکاری اعلان سامنے نہیں آیا۔یمن میں شریعت کے تحت خون بہا ایک قانونی طور پر تسلیم شدہ مالی معاوضہ ہے، جو مقتول کے اہل خانہ کو دیا جاتا ہے۔ اگر اہل خانہ اسے قبول کر لیں تو یہ سزاے موت کا ایک متبادل بن جاتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ مسلیار کے کیرالہ ہیڈکوارٹر پر ایک خصوصی دفتر بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ مذاکرات کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔
کیا کہنا ہے وکیل کا
ان کے وکیل سبھاش چندرن نے بتایاکہ ہم نمی شا پریا کو بچانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ معروف سنی عالم دین قانتا پورم اے پی ابوبکر مسلیار کی مداخلت سے اب مقتول کے خاندان کے ایک فرد، مقامی حکام اور یمنی مذہبی شخصیات سے بات چیت ممکن ہوئی ہے۔ مسلیار، اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور یمن کے مذہبی حلقوں سے بات کر رہے ہیں، جو آگے مقتول کے خاندان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہماری واحد امید یہی ہے کہ مقتول کا خاندان خون بہا قبول کر لے۔تاہم ابھی بھی کچھ قانونی اور سفارتی ابہامات موجود ہیں، اور 16 جولائی کی تاریخ کو سزائے موت کے ممکنہ دن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
نمی کے بارے میں
نمی شا پریا، جو کیرالہ کے ضلع پالکڈ کی رہنے والی ہیں، کو 2020 میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جبکہ ان کی حتمی اپیل 2023 میں مسترد کر دی گئی۔ وہ اس وقت یمن کے دارالحکومت صنعاء کی ایک جیل میں قید ہیں۔
حکومت کا بیان
اسی دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ 16 جولائی کو پھانسی کی سزا پانے والی نرس کے معاملے میں حکومت زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔اٹارنی جنرل آر وینکٹارامنی نے جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا کی بینچ کو بتایاکہ حکومت ہند اپنی پوری کوشش کر رہی ہے،کچھ ایسے شیوخ سے بھی رابطے میں ہے جو وہاں کے بہت با اثر افراد ہیں۔اب نمی شا پریا کی زندگی کا انحصار صرف اسی بات پر ہے کہ آیا مقتول کے اہل خانہ خون بہا قبول کرتے ہیں یا نہیں، جو اس سنگین انسانی معاملے میں آخری امید ہے۔