اسرائیلی ڈیفنس سسٹم ایرانی دماغ کے سامنے کیوں ہو ا فیل

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 25-06-2025
اسرائیلی ڈیفنس سسٹم ایرانی دماغ کے سامنے کیوں ہو ا فیل
اسرائیلی ڈیفنس سسٹم ایرانی دماغ کے سامنے کیوں ہو ا فیل

 



تہران ۔ نئی دہلی 

اسرائیل اور ایران کی جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا ،ابتک کچھ کہنا مشکل ہے ، ابتک ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ  ایران تر نوالہ نہیں ہے بلکہ گلے کی ہڈی بننے کی صلاحیت  رکھتا ہے ۔ جنگ میں ایران کے جوابی حملوں اور اسرائیل میں بڑی تباہی نے راتوں رات اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم توڑ دیا ہے ۔ جن میں ایران کے میزائیلوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے ،جن کے سبب اسرائیل کا ایر ڈیفینس چکنا چور ہوگیا ہے ،ہر کوئی ایران کی اس طاقت کو حیرت سے دیکھ رہا ہے ۔اسرائیل کے سامنے اب ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایران کے میزائیلوں سے کیسے بچا جائے کیونکہ آہنی  ڈوم کہلانے والا سسٹم اپنا بھرم کھو چکا ہے ۔دراصل ایران کے میزائیلوں نے جنگ کو دو طرفہ بنا دیا اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو  اسرائیل کی حفاظت کے نام پر درمیان میں کودنا پڑا ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ اب اسرائیل کو ایران کے میزائیلوں سے ہوئے نقصان کو چھپانے کی نوبت آگئی ہے ۔ایرانی میزائیلوں کے حملوں سے بڑے نقصانات کے بارے میں الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کم از کم چار مقامات پر میزائل حملوں کے اثرات دیکھے گئے ہیں، جن میں ایک اشدود کا بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ یروشلم کے جنوب میں بھی ایک مقام پر اثرات کی اطلاعات ہیں۔ان مقامات کی نوعیت کے بارے میں کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ان علاقوں سے معلومات یا ویڈیوز شیئر کرنے پر سخت پابندیاں عائد ہیں، اور فوجی سنسر شپ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔لہٰذا یہ جان پانا مشکل ہے کہ اصل میں کن اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور نقصان کی شدت کیا ہے۔ لیکن اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ 35 منٹ سے مسلسل سائرن بج رہے ہیں اور زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اسرائیل کے ایران پر 13 جون کو ہونے والے حملے کے بعد ایران کی جانب سے مبینہ طور پر اب تک تقریباً 450 بیلسٹک میزائل اسرائیل پر داغے جا چکے ہیں۔

ایران کا نشانہ: فوجی تنصیبات یا نفسیاتی برتری؟

ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے آپریشنل پلاننگ سینٹر اور ایک فوجی انٹیلی جنس مرکز کو براہ راست نشانہ بنایا۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد اسرائیل کے کثیر سطحی اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام میں دراڑ ڈالنا تھا — بظاہر اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ بئر السبع شہر کا ایک اسپتال ایرانی حملے کی زد میں آیا جہاں کئی افراد زخمی ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ ایرانی میزائل دفاعی حصار کو چیرتے ہوئے اسرائیلی سرزمین پر گرے۔

اسرائیل کا دفاعی نظام: مضبوط مگر ناقابلِ تسخیر نہیں؟

اسرائیل دنیا کے سب سے زیادہ جدید اور پرتہہ دفاعی نظام کا مالک ہے جس کی پانچ تہیں ہیں:

آئرن ڈوم — 70 کلومیٹر کے اندر داغے گئے راکٹ اور میزائل تباہ کرتا ہے۔

David's Sling (داؤد کی غلیل) — درمیانے فاصلے کے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے خلاف موثر۔

Arrow 2 اور Arrow 3 — لانگ رینج بیلسٹک میزائلوں کو خلا میں ہی نشانہ بناتے ہیں۔

THAAD سسٹم - امریکہ کا ہائی آلٹیٹیوڈ ڈیفنس نظام، جو اسرائیل میں نصب ہے۔

لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹرز — خاص طور پر ڈرونز مار گرانے کے لیے۔

اس کے باوجود اسرائیلی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ دفاعی نظام کی کامیابی کی شرح 80 سے 90 فیصد رہی — یعنی 10 سے 20 فیصد میزائل اس نظام کو توڑ کر اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

 

ایران کی حکمت عملی: تعداد، رفتار اور چالاکی

1. انٹرسیپٹر میزائل کی حد بندی

ہر اسرائیلی دفاعی لانچر کے پاس محدود انٹرسیپٹر میزائل ہوتے ہیں۔ اگر ایک مقام پر حملہ آور میزائلوں کی تعداد انٹرسیپٹرز سے زیادہ ہو جائے تو کچھ دشمن میزائل لازمی اپنے ہدف تک پہنچ جائیں گے۔

2. ہائپرسونک میزائل کا استعمال

ایران نے اپنے ہائپرسونک میزائل استعمال کیے جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز (تقریباً 6000 کلومیٹر فی گھنٹہ) پر سفر کرتے ہیں۔ اس رفتار پر اسرائیلی ریڈار اور دفاعی نظام کو ردعمل دینے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ان میزائلوں کو فضا میں مار گرانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

3. زِگ زیگ گلائیڈ وہیکلز

ایران کے فاتح-2 ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل (HGV) لے جانے والے میزائل راکٹ سے علیحدہ ہو کر راستے بدلتے رہتے ہیں، جس سے انہیں روایتی دفاعی نظاموں کے لیے مار گرانا دشوار ہوتا ہے۔

4. کروز میزائل حملے

ایران نے ’ہویزہ‘ کروز میزائل استعمال کیے جن کی رینج 1350 کلومیٹر تک ہے۔ یہ کم بلندی پر سفر کرتے ہیں اور پہاڑوں یا دیگر رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنے ہدف تک پہنچنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔

5. جعلی اور سستے میزائل/ڈرون حملے

ایران نے سستے میزائل اور ڈرونز بھی بھیجے تاکہ اسرائیلی دفاعی نظام انہیں اصل خطرہ سمجھے اور ان پر قیمتی انٹرسیپٹرز ضائع کر دے، جبکہ اصل مہلک میزائل بعد میں آ کر اپنے ہدف کو نشانہ بنائیں۔

6. ’سٹیلتھ‘ ٹیکنالوجی

کچھ ایرانی میزائل ریڈار کی پکڑ سے باہر ہیں جس سے اسرائیلی دفاعی نظام کو بروقت خطرے کا پتہ چلانا ممکن نہیں ہوتا۔

7. خودکش ڈرونز (شاہد 136)

ایران کے شاہد-136 ڈرونز کم لاگت، مگر مؤثر ہتھیار ہیں جو ہدف پر جا کر خود کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔ روس بھی یوکرین میں یہ ڈرونز استعمال کر رہا ہے۔

جنگ کا طول پکڑنا: گیم آف نمبرز

ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ایران-اسرائیل جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے، معاملہ اس بات پر آ پہنچا ہے کہ کس فریق کے پاس کتنے میزائل اور انٹرسیپٹر بچے ہیں۔ اگر اسرائیل کے انٹرسیپٹر ختم ہونے لگیں تو اس کے دفاعی نظام کی افادیت شدید متاثر ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی شراکت

مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی بحری جہاز اور اڈے اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں تاکہ ایرانی میزائل حملوں کو روکنے میں اس کے دفاعی نظام کو سپورٹ ملے۔ اس کے باوجود ایران کی جانب سے کثیر تعداد اور اقسام کے حملوں نے اسرائیلی دفاع کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔

 کیا اسرائیل کا دفاعی نظام خطرے میں ہے؟

اسرائیل کا کثیر تہہ دفاعی نظام دنیا کا جدید ترین ہے مگر ایران نے تعداد، ٹیکنالوجی اور اسٹریٹجی کی مدد سے اس میں دراڑ ڈالنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ جنگ اب محض ہتھیاروں کی نہیں بلکہ صبر، وسائل، اقتصادی قوت اور جنگی حکمت عملی کی جنگ بن چکی ہے۔

یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ جدید ترین دفاعی نظام بھی کثیر الجہتی اور مسلسل حملوں کے سامنے ناقابلِ تسخیر نہیں رہتے۔ ایران نے اسرائیل کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اس کے پاس جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کی ایسی اقسام موجود ہیں جو دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام کو بھی چیلنج کر سکتی ہیں۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی: علاقائی اور عالمی اثرات

اس جنگ کے طویل ہونے سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی سلامتی، معیشت اور توانائی کی رسد متاثر ہو سکتی ہے۔ ایران، اسرائیل، امریکہ اور خلیجی ممالک سبھی کے لیے اگلے دن فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں