کہاں ہیں طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-12-2021
کہاں ہیں طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ
کہاں ہیں طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ

 


کابل:طالبان کی جانب سے کابل کی فتح کو نومبر میں تین ماہ ہوگئے ہیں، مگر آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ زندہ ہیں یا پھر ملا عمر کی طرح ان کی موت کو چھپایا جا رہا ہے؟

اقتدار سنبھالنے کے دو ماہ بعد 30 اکتوبر کو طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ اخوندزادہ قندھار میں ہیں، وہ زندہ اور ٹھیک ہیں۔ اس وقت افغانستان کے جنوبی شہر میں یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان امیر نے ایک مدرسے میں تقریر کی تھی۔ 10 منٹ طویل ایک آڈیو ریکارڈنگ کی بنیاد پر طالبان کے عہدیداروں نے مدرسہ حکیمیہ میں ان کی موجودگی پر صداقت کی مہر لگا دی تھی۔

آڈیو میں ایک عمررسیدہ مگر گونجتی ہوئی آواز، جو کہ طالبان کے سپریم لیڈر کی بتائی جارہی تھی، میں اخوندزادہ نے کہا: ’خدا افغانستان کے مظلوموں کو اجر دے، جنہوں نے 20 سال تک کافروں اور ظالموں سے لڑائی کی۔‘اس سے قبل ان کا عوامی پروفائل بڑی حد تک اسلامی تعطیلات کے لیے جاری کیے جانے والے سالانہ تحریری پیغامات تک محدود تھا۔

ذرائع کے مطابق قندھار کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک میں، کوڑے سے بھری ایک ندی اور کچرے سے بھرے راستے کے درمیان، مدرسہ حکیمیہ کے دروازے کے سامنے دو طالبان جنگجو پہرے پر کھڑے تھے۔مدرسہ حکیمیہ کی سکیورٹی کے سربراہ معصوم شکر اللہ نے ذرائع کو بتایا کہ جب سپریم لیڈر نے دورہ کیا تو وہ ’مسلح‘ تھے اور ’تین سیکیورٹی گارڈز‘ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ سیل فون اور ساؤنڈ ریکارڈرز‘ کو بھی پنڈال میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اس واقعے کی گونج کے بعد سے طالبان کے حامی بڑی تعداد میں پھر سے متوجہ ہونے لگے اور اپنی تحریک کے سربراہ کے لیے ان میں نیا جذبہ بیدار ہوا۔ ’چہرہ دیکھنا بھول گئے‘ طالب علموں میں سے ایک 19 سالہ محمد نے طالبان سپریم لیڈر کی آمد کے بارے میں کہا: ’ہم سب انہیں دیکھ رہے تھے اور بس رو رہے تھے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ یقینی طور پر اخوندزادہ ہی تھے، محمد نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس قدر خوش تھے کہ وہ ’ان کا چہرہ دیکھنا بھول گئے۔‘

طالبان رہنماؤں کے لیے غائبانہ پیغامات بھیجنے اور منظر عام سے غائب رہنے کی ضرورت خاص طور پر جنگ کی آخری دہائی میں سامنے آئی، کیونکہ امریکی ڈرون حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا۔ 2016 میں ایسے ہی ایک حملے میں ان کے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد اخوندزادہ طالبان تحریک کے سربراہ کے مقام تک پہنچ گئے۔

پانچ سال قبل، تحریک کی باگ ڈور سنبھالنے پرطالبان نے اخوندزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی۔ تصویر میں انہیں سفید داڑھی، پگڑی اور گہری نظروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، طالبان کے مطابق یہ تصویر دو دہائیوں پہلے لی گئی تھی۔

مولوی سعید احمد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی حالیہ موجودگی کی خبر نے ان کی موت کے بارے میں ’افواہوں اور پروپیگنڈے‘ کو ختم کر دیا۔ دوسری جانب 13 سالہ محمد موسیٰ نے کہا کہ مدرسے آمد پر جب ان کو دور سے دیکھا تو وہ ’بالکل ویسے ہی‘ لگ رہے تھے جیسا کہ مشہور تصویر میں ہے۔معزول کی گئی پچھلی افغان حکومت کے حکام اور بہت سے مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اخوندزادہ برسوں پہلے انتقال کر گئے تھے اور مدرسے کا یہ دورہ صرف ایک دکھاوا تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ طالبان نے اپنے بانی ملا عمر کی 2013 میں موت کے دو سال تک دعویٰ کیا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔

سابق حکومت کے ایک سکیورٹی اہلکار نے ذرائع کو بتایا کہ اخوندزادہ ’طویل عرصے پہلے مر چکے ہیں اور کابل پر قبضے سے پہلے ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘ ذرائع کا خیال ہے کہ ’تقریباً تین سال پہلے‘ وہ کوئٹہ، پاکستان میں ایک خودکش حملے میں اپنے بھائی کے ساتھ مارے گئے تھے۔

ایک علیحدہ علاقائی سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ اخوندزادہ کی مبینہ موت کی ’کوئی تصدیق اور کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘ جب کہ پینٹاگون اور سی آئی اے نے اخوندزادہ کی موت کی افواہوں پر تبصرہ کرنے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔