عمران:مذاکرات کی بات ۔ کشمیراوراگرمگرکے ساتھ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-06-2021
عمران خان
عمران خان

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

لیجئے!پھر حاضر ہے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش ۔ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کےلئے تیار ہیں عمران خان ۔مگر ایک بار پھر کشمیر کی پھانس ہے اور اگر مگر کی رکاوٹیں۔ ایک پرانی عادت یا سیاسی مجبوری۔۔وہ جب بھی ہندوستان کے ساتھ کسی مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو یا تو رات گزرنے کے برف ’یو ٹرن‘ لے لیتے ہیں یا پھر اگر مار کے ساتھ قصہ تمام کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ‘اگر’ دہلی کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا لائحہ عمل دیتا ہے تو ان کا ملک روایتی حریف ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کو تیار ہے اگر کوئی روڈ میپ ہو تو تب ہم بات کر سکتے ہیں۔’

‘عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ ہمیں لائحہ عمل بھی دے دیں کہ یہ اقدامات ہیں جو ہم اپنے سابقہ غیر قانونی اور عالمی قوانین و اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی اقدام کو واپس لینے کے لئے اٹھائیں گے تو یہ قابل قبول ہو گا۔۔

عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان کے اس بڑے قدم کی دنیا میں کسی نے مذمت نہیں کی تھی بلکہ اسے ایک داخلی معاملہ مانا تھا،سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات تک سب نے اس قدم کو قبول کیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ترکی اور ملا ئیشیا کے ساتھ مل کر کچھ دنوں تک بین الاقوامی سطح پراچھل کود کی تھی ،مگر اب وہ بھی بکھر چکے ہیں۔ پاکستان نے ترکی اور ملا ئیشیا کے ساتھ جس نئی تگڑی کا خواب دیکھا تھا وہ بکھر چکا ہے۔ پاکستان کو لوٹ کر سعودی عرب کا رخ کرنا پڑا ہے۔اس کے باوجود رہ رہ کر کشمیر کا نام لے کرعمران خان صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کشمیر اب بھی ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کا کھیل اور سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اونٹ کو جس کروٹ بیٹھنا تھا بیٹھ چکا ہے۔

اس کو پاکستانی میڈیا میں عمرانن خان کی پست حوصلہ ہونے کی علامت مانا جارہا ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کا موقف رہا تھا کہ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کرنے کے لئےہندوستان 2019 میں اٹھائے گئے اقدامات واپس لے۔ہندوستان میں موجودہ حکومت نے اپنے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی، جس کے بعد پاکستان نے سیاسی ناکامی کی پردہ پوشی کےلئے باہمی تجارت معطل کرتے ہوئے سفارتی تعلقات میں بھی کمی کر دی تھی۔

 یاد رہے کہ ہندوستا ن اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگیں ہوچکی ہیں۔کشمیر میں بڑی سیاسی اور دستوری تبدیلی کے بعد حالات تیزی کے ساتھ معمول پر آؑئے ہیں جو پاکستان کےلئے کسی بڑے درد سے کم نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے کشمیر کی صدا بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہر مقام سے صرف مایوسی ہاتھ لگی ہے۔حال ہی میں جب عمران خان تاجکستان گئے توکشمیر کا راگ نہیں بھولے تھے۔

یاد رہے کہ 2019 میں پلوامہ حملے کے بد ہندوستان نے پاکستان پر ہوائی حملہ کیا تھا۔اس کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تناو رہا ہے۔

 عمران خان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’وہ ہمیشہ سے ہندوستان کے ساتھ ’مہذب‘ تعلقات چاہتے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان جب دوستی کی بات کرتے ہیں تودونوں ممالک کی غربت کے خاتمہ کےلئے اس کو اہم قرار دیتے ہیں۔ا ب یہ غربت کس کا مسئلہ ہے یہ تو دنیا بہتر جانتی ہے۔ لیکن عمران خان اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں غربت کا ہی غم ہے۔ لیکن ایسی اچھی اچھی باتوں کے بد اچانک پھر انہیں کشمیر ستانے لگتا ہے۔ایسا ماملہ جو اب کوئی مسئلہ ہی نہیں۔اس کا بار بار ذکر کرکے عمران خان اس سیاسی اور سفارتی ناکامی کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں جو ہندوستان کے کشمیر پر بڑے دستوری قدم سے ہوئی ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس انٹر ویو میں ایک بار پھر باہمی تجارت کو یاد کیا ،جس کےلئے اجازت دینے کے باوجود ان کی کابینہ نے تجویز کو مسترد کردیا تھا اور اس کا ’’سہرا‘‘ بھی کشمیر کے سر باندھا تھا۔ عمران خان نے یورپی یونین کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر آپ خطے میں غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کا بہترین راستہ باہمی تجارت ہے۔ 

حیرت کی بات یہی ہے کہ پاکستان نے مارچ میں اپنے معاشی امور دیکھنے کے ذمہ دار ادارے کے اس فیصلے کو موخر کر دیا تھا جس میں ہندوستان سے تجارت کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس موقع پر کہا گیا تھا کہ جب تک ہندوستان کشمیر سے متعلق اقدام کو واپس نہیں لیتا یہ سلسلہ ایسا ہی رکھا جائے گا۔

 یہ بھی حیران کن ہے کہ عمران خان ایک جانب مذاکرات کی پیشکش اگر اور مگر کے ساتھ کررہے ہیں اور عوام کو بیوقوف منانے کےلئے کہہ رہے ہیں کہ کشمیر خصوصی درجہ یا حیثیت ختم کر کے ہندوستان نے سرخ لائن‘ عبور کی ہے ۔وہ اس خوش فہمی میں بھی ہیں کہ ابھی تک ہندوستان نے کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن اسے مذاکرات کی بحالی کے لئے ہماری طرف لوٹنا ہو گا۔