پہلا حج کب ہوا ، کتنے تھے حاجی ؟ کون تھا امیر حج ؟

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 06-06-2025
پہلا حج کب ہوا ، کتنے تھے  حاجی ؟ کون تھا  امیر حج ؟
پہلا حج کب ہوا ، کتنے تھے حاجی ؟ کون تھا امیر حج ؟

 



مکہ : اسلامی تاریخ میں نو ہجری (9ھ) ایک ایسا سنگ میل ہے جہاں سے فریضۂ حج کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مصر کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء کے مطابق، یہ وہی سال تھا جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر حج فرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے سنہ 9 ھجری میں مسلمانوں پر پہلا حج فرض ہونے سے متعلق حکم الہیٰ صادر فرمایا۔ تمام علمائے کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ نبی مہربان نے امیر حج کی ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپی۔

حضرت ابوبکرؓ، پہلے امیرِ حج

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدس مہم کی قیادت کے لیے اپنے سب سے قریبی رفیق، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج مقرر فرمایا۔ ان کے ساتھ تین سو (300) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روانہ ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان منظم طور پر، بطور ایک امت، فریضۂ حج ادا کر رہے تھے۔ اس سے پہلے اگرچہ کچھ افراد انفرادی طور پر حج یا عمرہ کی نیت سے جا چکے تھے، لیکن حج فرض نہیں تھا۔

سورہ توبہ کا نزول اور ایک نیا موڑ

اس سفر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ "براءت" (سورہ توبہ) نازل ہوئی۔ اس سورت میں مشرکین مکہ کے معاہدہ شکن رویے پر سخت تنبیہ کی گئی اور واضح احکامات دیے گئے کہ اب مشرکین کو مسجدِ حرام میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، اور نہ ہی وہ بیت اللہ کا طواف کر سکیں گے۔ یہ اہم پیغام حج کے دوران تمام مسلمانوں تک پہنچانا ضروری تھا، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ذمے داری سونپی کہ وہ ان احکامات کو منیٰ میں پہنچ کر علی الاعلان بیان کریں۔ حضرت علیؓ رسول اللہ کی اونٹنی پر سوار ہوکر مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور راستے میں امیرِ حج حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا

کیا آپ امیر بن کر آئے ہیں یا مامور؟
حضرت علیؓ نے جواب دیا
میں مامور ہوں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ خاص احکامات کے ساتھ بھیجا ہے۔

منیٰ میں تاریخی خطبہ

قربانی کے دن، منیٰ میں جمع مسلمانوں کے سامنے حضرت علیؓ نے وہ خطبہ دیا جو اسلامی تاریخ میں ایک نئے دور کا اعلان تھا۔ انہوں نے فرمایا"آج کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، اور کوئی کافر جنت میں داخل نہ ہوگا۔"انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان معاہدہ اپنی مدت کے اختتام تک قائم رہے گا، بشرطیکہ اسے توڑا نہ جائے۔

حکمتِ الٰہی کا تقاضا

مصر کی فتویٰ کونسل کی تحقیق کے مطابق، نو ہجری سے قبل حج کا فرض نہ کیا جانا بھی الٰہی حکمت کا حصہ تھا۔ اس وقت قریش مکہ نہ صرف اسلام کے خلاف تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کو عمرہ کرنے سے بھی روک چکے تھے۔ اگر اس وقت حج فرض کیا جاتا تو قریش کا ممکنہ ردعمل مسلمانوں کے لیے شدید رکاوٹ بن سکتا تھا۔

ایک پیغام، ایک امت

یہ پہلا فرضی حج صرف ایک مذہبی عمل نہ تھا، بلکہ اتحاد، پیغام رسانی اور نظریاتی جدوجہد کا اہم مرحلہ بھی تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں ادا ہونے والا یہ حج، حضرت علیؓ کے زبانی اللہ کے نئے احکامات کی وضاحت کے ساتھ، امت مسلمہ کی فکری اور عملی وحدت کی مثال بن گیا۔یوں نو ہجری کا حج صرف ایک عبادت نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا، جو آج بھی ہمیں دعوت دیتا ہے کہ دین کا پیغام صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ معاشرتی تبدیلی، قیادت اور بصیرت سے بھی جڑا ہوا ہے۔