مزار شریف میں طالبان کے خلاف محاذ آرائی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-07-2021
مزار شریف
مزار شریف

 

 

 کابل :افغانستان میں طالبان نے ایک تہائیب ٹلک پر قبضہ کرلیا ہے لیکن اس کے باوجود زبردست مزامحمت جاری ہے۔

مقامی جنگجوؤں کے ارکان نے بلخ کے صوبائی دارالحکومت مزارشریف کے شمال میں سیاہ گرد کے محاذ پر اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے۔

بیشتر ارکان نے روایتی شلوار قمیض پہن رکھا ہے وہ بھی بغیر کسی حفاظتی چیزوں کے۔ ان کے کاندھوں پر ہتھیار لٹکے ہوئے ہیں لیکن شہر کے آس پاس دوسرے محاذوں کی طرح ان کے حوصلے بلند ہیں۔ طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے شمال مشرق میں بہت سارے اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جس سے افغان حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ افغانستان کے تمام 421 اضلاع اور ضلعی مراکز میں سے تقریباً ایک تہائی طالبان کے زیر کنٹرول ہیں۔

گذشتہ مہینے وزیر دفاع بننے والے بسم اللہ محمدی نے آتے ہی عوام پر زور دیا کہ وہ طالبان کے خلاف اکھٹے ہوں۔ یہ علی یار کے لیے ایک پرخطر کام ہے کیونکہ طالبان کے خلاف لڑائی میں شریک ہونے کی وجہ سے انہیں جگجوؤں کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

بلخ کے ایک سابق گورنر اور سابق مجاہدین کمانڈر نور کی تصاویر پورے مزار شریف کے بل بورڈز پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ دبئی سے واپس مزار شریف آئے ہیں جہاں طالبان جنگجو شہرکو خون سے نہلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

ہزارہ جنگجو محمد محقق کمانڈر نور کی تلقین کر رہے ہیں۔ موجودہ بحران کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی تنقید کے جواب میں نور نے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں اور ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ افغان عوام کا طالبان کے خلاف دفاع کریں۔

مجھے لوگوں کی اچھی حمایت حاصل ہے۔ میں حکومت، سیاسی میدان اور فیصلہ سازی میں شامل ہوں۔ ہمیں افغان خواتین اور مردوں اور بچوں کی جان، مال، وقار اور خود اعتمادی کا دفاع اور ان کو بچانے کی ضرورت ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے لوگ مار پیٹ اور تشدد کی زد میں رہیں۔' انہوں نے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا جا سکتا کہ مزار شریف پر قبضہ نہیں ہو سکتا۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی ساری طاقت اور صلاحیتوں کو اس کے طالبان کے قبضے میں آنے سے روکنے کے لیے استعمال کریں گے۔ ’اور فرض کریں کہ یہ شہر طالبان کے قبضے میں آ بھی گیا تو ہم گھر گھر جائیں گے اور طالبان کے ساتھ لڑیں گے۔ ہم انہیں تلاش کریں گے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں گے۔‘