ازبکستان: جہاں آج بھی صوفی بزرگوں کی محبت اوررواداری کی تعلیم زندہ ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-09-2022
ازبکستان: جہاں آج بھی صوفی بزرگوں کی محبت اوررواداری کی تعلیم زندہ ہے
ازبکستان: جہاں آج بھی صوفی بزرگوں کی محبت اوررواداری کی تعلیم زندہ ہے

 

 

منصورالدین فریدی : آواز دی وائس 

ازبکستان دنیا بھر کے زائرین کا مرکز بننے کا آرزومند رہا ہے۔ وہ دوسرا مکہ بننا چاہتا ہے۔ وسط ایشیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں شاہراہ ریشم پر آباد سمرقند اور بخارا جیسے شہروں میں بڑی بڑی مساجد اور مقبرے ہیں جو انتہائی اچھے حال میں ہیں،ملک میں مقبروں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے جو زیارت کا مرکز ہیں ۔۔۔

یہ الفاظ ازبک صحافی رستم قوبل کے ہیں جن کے مطابق ۔۔۔ سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار ہیں جن میں بادشاہ تیمور لنگ، ماہر فلکیات الغ بیگ اور قثم ابن عباس شامل ہیں۔ قثم جنھیں ازبکستان میں زندہ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ حضرت محمد کے چچازاد بھائی عباس کے بیٹے تھے اور اس علاقے میں انھوں نے ہی پہلے پہل اسلام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ ماہرین مانتے ہیں کہ عمومی طور پر معاشرے پراعتدال پسند اور صوفی اسلام کے اثرات نمایاں ہیں۔ تاشقند اور سمر قند میں عالمگیریت کا رنگ غالب نظر آتاہوا محسوس ہوتاہے۔ اس کے برعکس بخارا میں مقامی کلچر کی چھاپ گہری اور نمایاں ہے۔

دراصل تصوف کا یہ سلسلہ بخارہ سے شروع ہوا‘ حضرت بہاؤالدین نقش بندؒ کا مزار بخارہ کے مضافات میں ہے۔

ازبکستان کے بخارا میں درجنوں خانقاہیں اس خطے کی صوفیانہ روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصوف کے کئی ایک سلسلوں کی کڑیاں ازبکستان سے جا ملتی ہیں۔ سولہویں اور سترویں صدی میں بخارا میں ایسی عمارات تعمیر ہوئی جو درویشوں کے ڈیرے کہلاتے ہیں۔ ان محل نماعمارتوں میں مساجد کے علاوہ طعام وقیام کا اعلیٰ انتظام کیاجاتاتھا۔ وسطی ایشیا اور ترکی سے کئی ایک درویش بخارا کا رخ کرتے۔ بعض کئی کئی ماہ تک یہاں قیام کرتے۔

تاریخ داں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ صوفیا کے گہرے سماجی اثرات اور سوویت یونین کے قبضے کی بدولت یہاں اسلام کا اعتدال پسندانہ تصور پایاجاتاہے۔ مذہب محبت اور قوم کو منظم کرنے کے کام آتاہے، نہ کہ انہیں فرقوں میں تقسیم کرنے کے۔ نئی نسل میں قدیم روایات کے احیاء کا جذبہ موجزن ہے۔

 اہم بات یہ ہے کہ  لوگ اپنے کلچر سے محبت کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی۔ اس کو محفوظ رکھتے ہیں اور اعتشال پسند ہیں۔جو امام بخاری کا نام بڑی عزت سے لیتے ہیں ،ان کی زندگی پر صوفی بزرگوں کی زندگی کا اثر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اس خطے ہی کی نہیں بلکہ عالم اسلام کی شناخت قراردیاجاتاہے۔ ان کی حیات او رخدمات پر کئی ایک یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں۔

 

یہ کہانی ہے ازبکستان کی۔

ازبکستان کادارالحکومت تاشقند ہے جو یہ نہ صرف ملک میں بلکہ وسطی ایشیاء میں بھی سب سے بڑا اور آباد شہر ہے۔ یہ قازقستان کی سرحد کے قریب ہے ۔ یہ وہ شہر ہے جسے مشہور چنگیز خان نے 1219 اور اسی میں تباہ کیا تھا یہ شاہراہ ریشم کا حصہ تھا۔

اس کو روسیوں نے بھی فتح کیا تھا اور اس نے 1966 میں آنے والے خوفناک زلزلے میں بہت زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سابقہ سوویت یونین میں  لینن گراڈ اور کیف کے بعد یہ سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کی 2200 سال سے زیادہ کی تاریخ ہے.

مگر اس ملک میں دو شہر ایسے ہیں جن کے بغیر اس کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔جب بخارا اور سمرقند ہیں ۔ان شہروں سے تاشقند تک اگر کوئی  یکسا ں ہے تو وہ ملک میں صوفی تاریخ اور اس کے نشانات یعنی مزارات ہیں ۔

 بخارا میں خانقاہیں

ماضی میں چنگیز خان سمیت کئی حکمرانوں کی دست برد کا نشانہ بننے والا ازبکستان کا شہر بخارا صدیوں سے اسلامی تمدن کا بڑا مرکز شمار ہوتا ہے۔ امام بخاری کا حوالہ تو خیر سب سے نمایاں ہے لیکن اس شہر میں قدیم تاریخی عمارات، یہاں کے بازار، منفرد روایتی کھانے اور ثقافت کے مختلف مظاہر پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ بخارا کا قدیم شہر جسے ’زندہ میوزیم‘ کہا جاتا ہے، یہ اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل ہے۔ شاہراہِ ریشم پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ شہر علمی، مذہبی، ثقافتی اور تجارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔آج بھی یہاں کئی مساجد اور مدرسے قائم ہیں لیکن شہر کا سب سے بڑا تعارف امام بخاری ہیں۔ ان کی کتاب صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ یہیں پیدا ہوئے اور پھر علم کے حصول کے لیے کئی مقامات کے دورے کئے۔

اس شہر میں بولو حوض مسجد، ماغوکِ عطاری مسجد، مختلف کلیسا، پوئی کلیاں اسکوائر، اسماعیل سامانی کا مقبرہ، شہر میں نصب مشاہیر کے مجسمے، لبِ حوض، بخارہ کا قلعہ ارگ، چشمۂ ایوب، ریلوے سٹیشن بخارا اور چار مینار سمیت بے شمار ایسی جگہیں ہیں جنہیں سیاح نظر انداز نہیں کر سکتے۔

 ممتاز صحافی ارشاد محمود کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ بخارا میں درجنوں خانقاہیں اس خطے کی صوفیانہ روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصوف کے کئی ایک سلسلوں کی کڑیاں ازبکستان سے جا ملتی ہیں۔ سولہویں اور سترویں صدی میں بخارا میں ایسی عمارات تعمیر ہوئی جو درویشوں کے ڈیرے کہلاتے ہیں۔ ان محل نماعمارتوں میں مساجد کے علاوہ طعام وقیام کا اعلیٰ انتظام کیاجاتاتھا۔ وسطی ایشیا اور ترکی سے کئی ایک درویش بخارا کا رخ کرتے۔

بعض کئی کئی ماہ تک یہاں قیام کرتے۔ سرکار اور اہل ثروت درویشوں کی خدمت کرتے۔ ان کے آرام کا خیال کرتے اور ان کی موجودگی کو خیر وبرکت کا باعث قراردیتے۔ اگرچہ یہ سلسلہ کب کا تمام ہوچکا لیکن آج بھی معمر لوگ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

اسلامی فن تعمیر کا بے مثال نمونہ

یہاں موجود وسیع و عریض اور خوبصورت تاریخی مسجد کا نام کلیان مسجد ہے۔ اس مسجد کو سن 1514 میں تعمیر کیا گیا اور یہاں 12 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ یہ مسجد تیموری دور کے منفرد طرزِ تعمیر کی خوبصورت مثال ہے۔ مسجد کے دونوں اطراف 2 بڑے، نیلے رنگ کے دیدہ زیب گنبد موجود ہیں جبکہ مسجد کے اندرونی صحن کے اطراف میں 208 ستون اور 280 سے زائد چھوٹے گنبد موجود ہیں جو اس مسجد کو دیگر روایتی مساجد سے منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔

 حقیقت یہی ہے کہ بخارا کے چپے چپے پر تاریخ رقم ہوئی۔ اس کے درویوار شاندار روایات اور تہذیب کے امین ہیں۔ گزرے زمانے کے اثرات اور شواہد اب بھی شہر کے ہر ایک حصے پر ثبت ہیں۔ صدیوں پرانی عمارتیں، میوزیم، مساجد، مدارس، پارک اور بازار اس شہرکے جاہ وجلال کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ سرکار نے ہر عمارت اور مقام کو محفوظ بنانے، اس کی روایتی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔

وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔   فن تعمیرات کے ماہرین کے وارے نیار ہوچکے ہیں۔ پرانی عمارتوں کی اصلی صورت میں بحالی کے لیے مہنگے ترین منصوبوں کی بھی حکومت فنڈنگ کرتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ بخارا کو میوزیم کا شہر کہاجانے لگا ہے۔ شہر میں جہاں بھی جائیں قدیم اور جدید تہذیب کا امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ پرانی آبادیاں کھنڈرات کا منظر پیش نہیں کرتیں بلکہ انہیں اس طرح بنایاسنوارا گیا کہ وہ شہر کی رونق بن گئی ہیں۔۔۔۰

سمر قند ایک تاریخی سرزمین

ازبکستان کا شہر سمرقند بھی بخارا ہی طرح اہم ہے۔ شاہراہ ریشم کے وسط میں واقع اس شہر کو بھی تاریخی مرکز مانا جاتا ہے۔ یہاں کے مقبرے، مدارس، مساجد، مینارے، کلیسا اور یادگاریں اپنی منفرد تاریخ رکھتی ہیں۔ سمرقند شہر میں واقع قدیم ترین بی بی خانم مسجد، قدیم شہر کے آثار، شاہ زندہ کمپلیکس، اور امیر تیمور کا مقبرہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔امام بخاری، امام ماتریدی، نصیر الدین باصر سمیت کئی تاریخی شخصیات کے مقبرے بھی سرقند میں ہیں۔ اس کے علاوہ سمرقند کی روٹیاں بھی بہت مشہور ہیں۔

ظلم پر حاوی رہا تصوف

تاریخ گواہ ہے کہ کمیونسٹ دور کی کہانی بہت تلخ ہے۔ یادیں بہت درد ناک ہیں اور ماضی کے زخم بھولے نہیں جاسکے ہیں ۔کیونکہ سوویت یونین کے زمانے میں جن خانقاہوں، مدارس اور مساجد کو تالے ڈال دیے گئے تھے آج وہ گھماگھیمی سے جگ مگا رہی ہیں۔ لوگ ماضی کی تلخ یادوں کو یاد کرنے کےحق میں نہیں ۔

کمیونسٹ دور میں بہت کچھ ہوا تھا ،ماسکو کی کمیونسٹ حکومت کے سبب عربی حروف تہجی اجنبی بنادیئے گئے تھے۔ اب ماضی سے رشتے ازسر نو استوار کرنے کی خاطر کچھ لوگ اب بچوں کو عربی رسم الخط میں لکھے قرآن کی تعلیم دیتے ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ عام شہریوں میں روس کے خلاف کوئی نفرت یا انتقام کا جذبہ نہیں پایاجاتا۔

 حیرت کی بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے بکھراو کے بعد بھی روسی  اس سرزمین پر محفوظ ہیں ۔ وہ اب بھی  ماسکو کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے حامی ہیں۔

آج بھی روس ازبکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سردیوں میں ہزاروں روسی ازبکستان کی سیروسیاخت کو آتے ہیں۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ روسی نسل کے لوگ آج بھی ازبکستان میں آباد ہیں لیکن اب وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں رہے۔ اس کو صوفی تہذیب کا حصہ مانتے ہیں ۔

اردو زبان اور ازبکستان

آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ زبان اردو میں چار ہزار ازبک الفاظ ہیں‘ ہمارا ہر تیسرا لفظ ازبک ہوتا ہے۔ ہمارے پاس پلاؤ‘ نان‘ گوشت‘ کباب‘ سالاد‘ شوربہ اور پیالہ ازبکستان سے آیا۔ تربوز بھی ازبک ہندوستان لے کر آئے

شہتوت بھی ازبکستان سے آیا‘ یہ لوگ سبز شہتوت کو توت اور سیاہ اور سرخ کو شہتوت کہتے ہیں۔ شاہ دراصل سیاہ تھا‘ ہم نے سیاہ کو بگاڑ کر شاہ بنا دیا

سرکار اور اہل ثروت درویشوں کی خدمت کرتے۔ ان کے آرام کا خیال کرتے اور ان کی موجودگی کو خیر وبرکت کا باعث قراردیتے۔ اگرچہ یہ سلسلہ کب کا تمام ہوچکا لیکن آج بھی معمر لوگ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں۔

بہرحال  اب یہ سیکولر ریاست بارہ صوبوں میں منقسم ہے اور شاید آپ اسے نہیں جانتے ہوں گے ، لیکن ایسا ہے کاٹن یا کپاس  کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے. اس کے علاوہ اس میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور آج وہ ہے سب سے بڑا توانائی پیدا کرنے والا ایشیائی ملک ہے ۔جس میں عوام کی امن پسندی اور اعتدال پسندی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔