تل ابیب: ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ، اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ میں فعال طور پر شامل ہوتا ہے تو یہ ’’سب کے لیے نہایت خطرناک‘‘ ہوگا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس وقت امریکی فوجی مداخلت کے امکان پر غور کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میں عراقچی نے کہا کہ ’’یہ بہت بدقسمتی کی بات ہوگی۔‘‘ انہوں نے یہ بات جنیوا میں مذاکرات کے بعد واپسی کے دوران استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ تاہم، ان مذاکرات میں کوئی سفارتی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ عراقچی نے کہا کہ وہ آئندہ بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن اس بات پر زور دیا کہ جب تک اسرائیل کے حملے جاری ہیں، تہران کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
غور طلب ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان موجودہ کشیدگی اور جنگی صورتحال کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط سیاسی، نظریاتی، اور عسکری اختلافات میں پیوست ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی بھی باضابطہ جنگ نہیں ہوئی، تاہم حالیہ برسوں میں دشمنی کھل کر سامنے آئی ہے، اور 2025 میں یہ کشیدگی ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا اور آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک مذہبی حکومت قائم ہوئی۔ اس انقلاب کے بعد ایران نے اسرائیل کو ایک "غاصب صیہونی ریاست" قرار دیا اور فلسطینی کاز کی کھل کر حمایت شروع کی، خاص طور پر حماس اور حزب اللہ جیسے گروہوں کی۔
اسرائیل نے ایران کو مشرق وسطیٰ میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھنا شروع کر دیا، خاص طور پر اس وقت سے جب ایران نے اپنا جوہری پروگرام تیز کیا۔ اسرائیل متعدد بار ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کر چکا ہے، اور سائبر حملوں سے لے کر ایرانی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ تک متعدد کارروائیاں انجام دی گئی ہیں۔