امریکہ: ’غلطی سے‘ کیے گئے ڈرون حملے کے جائزے کا حکم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
تباہ حال کار
تباہ حال کار

 

 

واشنگٹن: امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے گذشتہ ماہ 29 اگست کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت 10 افغان شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کا اعلیٰ سطح پر جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔

پینٹاگون نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ اس حملے میں داعش کا ایک جنگجو ہلاک ہوا تھا۔

 لائیڈ آسٹن اس بات پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کسی فوجی تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو بتایا کہ آسٹن نے امریکی فضائیہ کو کہا کہ وہ سینٹرل کمانڈ کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے تھری یا فور سٹار رینک کے عہدے کا ایک افسر مقرر کرے، جو اس سانحے کی طرف جانے والے واقعات کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ لے۔

اہم نتائج یہ تھے کہ اس ڈرون حملے میں صرف افغان شہری مارے گئے تھے اور یہ کہ امریکی فوج کو یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی کہ وہ سفید ٹویوٹا کرولا جسے انہوں نے گھنٹوں تک ٹریک کیا اور پھر ہیل فائر میزائل کا نشانہ بنایا، واقعی کوئی خطرہ تھا۔

 اس کارروائی کے بارے میں فوج کے ابتدائی دعوؤں اور زمینی حقائق کے درمیان تضادات تیزی سے سامنے آئے نے اطلاع دی تھی کہ ٹارگٹ کی گئی گاڑی کا ڈرائیور امریکہ کی ایک انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم میں کافی عرصے سے ملازم تھا۔

 پینٹاگون کے اس دعوے کے باوجود کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا، کسی دوسرے بڑے دھماکے کے آثار نہیں ملے

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ ان کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ڈرون کے ذریعے نشانہ بنائی گئی گاڑی کو ابتدائی طور پر کابل میں داعش کے ایک کمپاؤنڈ میں دیکھا گیا تھا اور اسے امریکی انٹیلی جنس نے آٹھ گھنٹے تک ٹریک کیا تھا۔ میک کینزی نے کہا کہ گاڑی کے بارے میں انٹیلی جنس افسوس ناک طور پر غلط نکلی۔

امریکی فوج نے ابتدائی طور پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ گاڑی میں کم از کم داعش کا ایک جنگجو مارا گیا ہے، لیکن میک کینزی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس واقعے میں صرف معصوم شہری مارے گئے۔ میکنزی نے غلطی قبول کرتے ہوئے معافی مانگی۔