دبئی: اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں اتوار کی صبح دوبارہ اس پر پابندیاں عائد کر دیں، جس کے بعد پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ملک کے عوام کی مستقبل کے حوالے سے تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔
اقوام متحدہ میں آخری وقت کی سفارتی کوششیں ناکام ہونے کے بعد اتوار کو ایران پر پابندیاں نافذ ہو گئیں۔ ایران پر اب کئی طرح کی پابندیاں عائد ہوں گی جن میں بیرونِ ملک جائیدادوں پر روک، اسلحہ کے سودوں پر پابندی اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے پر جرمانہ شامل ہے۔ یہ پابندیاں ایسے وقت میں عائد کی گئی ہیں جب ایران سنگین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔
ایرانی کرنسی ریال انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے، غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور روزمرہ کی زندگی مزید دشوار ہو گئی ہے۔ ایک شہری "سینا" نے کہا کہ ملک نے کبھی ایسے مشکل دور کا سامنا نہیں کیا، حتیٰ کہ 1980 کی دہائی کی ایران۔عراق جنگ اور اس کے بعد دہائیوں تک عائد پابندیوں کے دوران بھی نہیں۔
سینا نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں کہا، ’’ہم معاشی تنگی سے گزر رہے ہیں اور ہر سال حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے خواب ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘ تہران کی ایک کریانہ دکان پر "سیما تقہاوی" نامی خاتون نے کہا، ’’ہر دن پنیر، دودھ اور مکھن کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘‘
جون میں جنگ کے بعد ہی ایران میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا، جس سے پہلے ہی مہنگا گوشت غریب خاندانوں کی پہنچ سے باہر ہو گیا۔ ایرانی حکومت نے جون میں سالانہ مہنگائی کی شرح 34.5 فیصد بتائی، جبکہ شماریات مرکز نے کہا کہ اسی مدت میں ضروری غذائی اجناس کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ صرف ایک سال میں پھلیوں کی قیمت تین گنا بڑھ گئی، مکھن تقریباً دگنا ہو گیا۔ چاول جو ایک بنیادی غذائی شے ہے، اس کی قیمت اوسطاً 80 فیصد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔