ترکی: طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں کوئی جلدی نہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ترک وزیر خارجہ
ترک وزیر خارجہ

 

 

استنبول :ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ترکی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نہیں کرے گا۔ دنیا کو بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہیں ہونی چاہیے۔

ترک وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ترکی مختلف عوامل کی بنیاد پر فیصلہ کریگا۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے افغانستان میں نوبت خانہ جنگی تک نہیں پہنچے گی۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت معاشی بحران اور قحط جیسی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قطر اور امریکا سےکابل ایئرپورٹ سے متعلق بات کر رہے ہیں ۔

دراصل افغانستان میں اس وقت طالبان رہنماؤں کے مطابق ان کی ’اسلامی امارات‘ نافذ ہو چکی ہے اور متحرک ہے۔

کابل میں افغان وزارت اطلاعات و ثقافت کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو رجسٹریشن کے لیے دیے جانے والے اجازت نامے پر ’اسلامی امارت‘ لکھا گیا ہے اور اکثر سرکاری عمارات پر طالبان کے اسلامی امارت کا سفید جھنڈا لہرا رہا ہے۔

 روس، چین، امریکہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے اس سال مارچ میں کہا تھا کہ وہ اسلامی امارت کی بحالی کی حمایت نہیں کریں گے۔ طالبان نے ’ٹرائیکا پلس‘ کے اس مطالبے کو بظاہر مسترد کرتے ہوئے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔ اسلامی امارت کا اعلان ہونے سے طالبان حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرانے میں رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔

پاکستان نے 1996 میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا، لیکن شاید وہ اس مرتبہ جلد بازی میں فیصلہ نہ کرے اور دوست ممالک سے صلاح مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ سامنے آئے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں بدھ کے دن ایک ورچول اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے جس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک آپس میں مشاورت کر رہے ہیں۔

طالبان کے روس کے ساتھ اس وقت اچھے مراسم اور تعلقات ہیں لیکن روسی وزیر خارجہ سرگے لارووف نے پیر کو کہا کہ اگر طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت بناتے ہیں تو روس اس کو تسلیم کرلے گا۔ رپورٹوں کے مطابق چین نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔

 افغانستان میں سرکاری دستاویزات پر ’اسلامی امارت‘ لکھا جا رہا ہے۔

۔ 15 اگست کو کابل میں طالبان کی امد سے اب تک حکومت کا نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ کابل شہر میں صرف چند ٹریفک پولیس والے نظر آتے ہیں اور باقاعدہ پولیس موجود نہیں۔

 ہر نظام طالبان خود غیر رسمی طور پر چلا رہے ہیں۔ مسلح طالبان کو مروجہ قوانین اور اصولوں کی آگاہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہو سفارت خانوں کی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو بھی روکتے ہیں اور کاغذات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

 طورخم سرحد کی افغان جانب اب طالبان کے زیر کنٹرول انٹیلی جنس یعنی این ڈی ایس والوں نے اپنا نظام بنا دیا ہے اور مجھ سمیت برطانوی، فرانسیسی اور ترک صحافیوں کو تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کے لیے روکے رکھا۔

 اہم عہدوں جس میں رئیس الوزرا (کابینہ کے سربراہ یا وزیراعظم)، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق آرا مختلف تھیں، اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے عہدے داروں کے ناموں کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔